Maktaba Wahhabi

27 - 924
اہم مضامین کی چھانٹی کی۔ سو(۱۰۰)مختلف عنوانات پر مشتمل مقالات کا انتخاب کیا گیا اور اس اشاعتِ خاص کا عنوان ’’ارمغانِ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘رکھا گیا۔ مضامین میں تکرار، صفحات کی کمی اور لوگوں کے بار بار رابطوں کی وجہ سے تمام مقالات و تاثراتی مضامین میں حک و اضافہ، حشو و زوائد اور تکرار ختم کرنا از حد ضروری بلکہ مجبوری بن گیا تھا، جس کے لیے میں اہلِ قلم اور قارئینِ کرام سے معذرت خواہ ہوں ۔ اکثر مضامین نگاروں نے مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی کتابوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت بھٹی صاحب کا اصل تعارف ان کی وقیع علمی و سوانحی اور تاریخی موضوعات پر ۴۰ کے قریب کتب سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے بار بار کتابوں کے تعارف اور تذکار کو تکرار کے دائرے سے باہر سمجھتے ہوئے جوں کا توں رہنے دیا ہے۔ ’’ارمغان‘‘ کی ترتیب کے دوران میں بہت سے گرامیِ قدر احباب و علما نے مضامین بھیجنے کی یقین دہائی کرائی، لیکن وہ اپنے عہد کی پاسداری نہ نبھا سکے۔ اسی طرح کچھ احباب مقررہ وقت تک تحریری مواد پہنچانے میں تاخیر کا شکار ہوئے اور باوجود کوشش کے ان کے تاثرات اس میں شامل نہیں ہوسکے۔ یہاں ایک اور تلخ حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا جاؤں کہ ’’ارمغان‘‘ کی ترتیب و اشاعت کے دوران میں ایک فاضل مصنف اور ہمارے قریبی دوست تو عجیب و غریب ’’مصلحت‘‘ کا شکار بھی ہو گئے۔ وہ احباب کو فون کر کے حال احوال پوچھنے کے بہانے ’’ارمغانِ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘ کے متعلق شکوک و شبہات پھیلانے کا ’’فریضہ‘‘ انجام دیتے رہے۔ بہر حال باتیں تو بہت ہیں کرنے کو… لیکن ان کو بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ یہاں ہم صرف حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی یادوں کا گلستان آباد کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک دو کڑوی کسیلی باتوں کے ذکر پر معذرت۔ بقول شاعر: ؎ تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے اپریل ۲۰۰۲ء میں جب میں نے اپنے شیخ محترم حضرت مولانا عبدالرزاق سلفی عنایت پوری مرحوم(سابق امیر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ضلع بہاول پور۔ المتوفی: ۲۴؍ دسمبر ۲۰۰۷ء)کی نگرانی میں ماہنامہ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ کے اجرا سے اپنے تحریری سفر کا باقاعدہ آغاز کیا تو انھوں نے مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ ’’تحریر میں ہمیشہ مثبت اسلوب رکھنا، اپنے سے پہلے کام کرنے والوں کا دل سے احترام کرنا، جہاں مثبت کام بہت زیادہ ہو تو وہاں معاصرانہ کشمکش سے جو تھوڑے بہت منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں ، انھیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔‘‘ الحمدللہ میں آج تک ان کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہوں ۔ بہرحال یہ ارمغانِ خاص جو مؤرخِ اہلِ حدیث، ذہبیِ دوراں حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے حالاتِ زندگی، افکار و سوانح، خدماتِ علمیہ، احوال و اوصاف، تصنیف و تالیف، امتیازات و خصوصیات پر مشتمل آپ کے ہاتھوں میں ہے، اپنی حیثیت میں ایک مکمل کتاب ہی کا درجہ رکھتا ہے، اس کی ترتیب و اشاعت میں مجھے کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ شوگر، بلڈ پریشر اور کمر کی تکلیف نے بہت بے چین کیے رکھا۔ پھر اندرونِ پاکستان کے علاوہ ہندوستان، نیپال،
Flag Counter