Maktaba Wahhabi

269 - 924
دوبارہ پوچھنے پر کہا: سنو! اسحاق بھٹی تقریر کر رہا ہے۔ اس نیک سیرت خاتون نے اپنے میکے گاؤں ۳۶ ستیانہ میں وفات پائی۔ بہرحال بھٹی صاحب مرحوم نے کتنی شادیاں کیں ، یہ ہمارا موضوع نہیں ۔ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو حضرات اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں برق التوحیدی کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ تو وہ اس سوال کا جواب بھی تلاش کر لائیں کہ بھٹی صاحب مرحوم نے اپنی رفیقۂ حیات کے ذکر سے اغماض کیوں برتا؟ اپنے متعلق تو ایک سبب ہم نے ذکر کر دیا، جس میں خود ہماری کوتاہی ہے اور اب اس پر شرمندہ بھی ہیں اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے معذرت خواہ بھی اور شاید کہ بھٹی صاحب مرحوم نے ہمیں ہماری کسی اور کوتاہی کی بنا پر اس قابل نہ سمجھا ہو تو اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور اپنی اصلاح کی توفیق دے کہ ﴿ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ بھٹی صاحب مرحوم کا ایک قیمتی اہم نامہ مبارک کہیں اوراق میں گم ہوگیا ہے، جس میں اُنھوں نے راقم کو مولانا عبدالعزیز کوموی مرحوم کے حالات لکھ کر بھیجنے کا حکم فرمایا اور یہ حکم ایک ملاقات میں بھی فرمایا۔ چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’مجھے قاضی صاحب کے سوانح حیات کے سلسلے میں مولانا عبدالعزیز کوموی اور ان کے خاندان کے اکابر اصحابِ علم کے حالات کی تلاش تھی، اس کے لیے میں نے اپنے دیرینہ دوست جناب ندیم کوموی کو خط لکھا اور پیغام بھجوائے، پھر اسی اثنا میں لاہور میں مولانا برق توحیدی(خطیب جامع مسجد اہلِ حدیث ٹوبہ ٹیک سنگھ)سے ملاقات ہوئی تو ان کے ہاتھ پیغام بھجوایا۔ اُنھوں نے مہربانی کرکے مولانا عبدالعزیز اور ان کے اکابر کے بارے میں مجھے مطلع فرمایا۔ اس پر میں اپنے عزیز دوست مولانا برق التوحیدی کا بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ اُنھوں نے کئی دفعہ ندیم کوموی صاحب کو یاد دہانی کرائی اور ان معلومات کی فراہمی میں میری مدد فرمائی۔ دُعا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین‘‘ (قاضی محمد سلیمان منصور پوری۔ ص: ۸۴۔ ۷۶)
Flag Counter