Maktaba Wahhabi

263 - 924
تحقیر و تنقیص کا کام لیا جاتا ہو، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ممدوح مرحوم کو میدانِ قلم و قرطاس کا جس قدر عظیم شہسوار بنا کر ان میں تلوار زنی یا نیزہ بازی کی صلاحیتیں ودیعت فرمائی تھیں ، وہ ان کا رُخ کسی طرف بھی موڑ کر خوب لتاڑ پچھاڑ اور دھاڑ سکتے تھے، مگر اُنھوں نے اپنے قلم کے تقدس کو مجروح کیا نہ عام صحافیوں کی طرح اس کی نیلامی کی، بلکہ ان کے قلم سے کلم ہونے کے بجائے بہت سے لوگوں نے کلام قلم سیکھا، بلکہ کوئی تسلیم و اعتراف کرے یا نہ کرے، ان کا قلم رہتی دنیا تک منبع علم رہے گا اور اس چشمہ فیض سے لوگ سیراب ہوتے رہیں گے۔ بہرحال ممدوح مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر اخلاق و کردار کے اوصافِ حمیدہ اور فضائلِ شریفہ سے نوازا تھا، ان کا اظہار اگرچہ اُنھوں نے اپنی فطری کسرِ نفسی سے کبھی نہ کیا تھا، مگر ان کی عملی زندگی ان کا چلتا پھرتا، اشتہار و اعلان تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلے پر رُکے تو اہلِ مدینہ ان کے استقبال و زیارت کے لیے وہاں پہنچے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانتے نہ تھے تو پہلے پہل حضرت ابو بکرt کو سلام محبت کہتے۔ جب دوپہر ہوئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے از راہِ خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر کا سایہ کیا تو ان کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ ہیں ! سو اگر کسی مجلس میں ہمارے ممدو ح مرحوم تشریف فرما ہوتے یا کوئی اُنھیں آتے جاتے دیکھتا تو یہ معلوم ہی نہ کر سکتا تھا کہ یہ بھی کوئی ایسا شخص ہے، جس کا نام سن کر یا کام دیکھ کر بڑے بڑے اصحابِ جبہ و دستار بھی تعظیم بجا لائیں گے اور ادب و صحافت کے ناخدا ان کو پا کر نگاہیں نیچی کر لیں گے، مگر جب کسی اجنبی کو بتایا جاتا کہ یہ ہیں مولانا محمد اسحاق بھٹی! تو وہ یکدم جھٹکے سے حیرت زدہ رہ جاتا کہ شاید سچ نہ ہو، مگر جنھیں معلوم ہے کہ صفرا و بیضا کی کان کا علم محض اوپر سے نہیں ہوتا، لعل و جواہر کے سیپ کا ظاہر اپنا اندر نہیں بتاتے، وہ سمجھتے تھے کہ پھل دار شاخ ہی ہمیشہ جھکتی ہے۔ مگر یہ بھی عجیب ہے کہ بعض پھل دار شاخیں جھکی ہونے کے باوجود حصار خار کی بنا پر دسترس سے باہر ہوتی ہیں ، لیکن ممدوح مرحوم ایسے کسی اخلاقی حصار خار کا شکار نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سے ہر نوع چھوٹوں سے محبت و شفقت کا اظہار فرماتے، خصوصاً طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ خود راقم الحروف ان کی حوصلہ افزائی کا رہینِ منت ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں جب ایک مضمون ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ میں شائع ہوا تو اس پر حوصلہ افزائی کے ساتھ اپنی زیرِ ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’’معارف‘‘ میں اس پر شذرہ بھی لکھا، اسی طرح وہ ماہنامہ ’’التوحید‘‘ کا مطالعہ فرماتے تو سب سے پہلے حوصلہ افزائی فرماتے اور کہتے کہ آپ کا اداریہ ضرور پڑھتا ہوں ، البتہ پروف ریڈنگ کی غلطیاں مزہ کرکرا کر دیتی ہیں تو میں عرض کرتا: حضرت یہ میری مجبوری اور کمزوری ہے کہ پورا پرچہ خود ہی لکھتا ہوں ، خود ہی پروف ریڈنگ کرتا اور چھپواتا ہوں ، پارسل کرتا ہوں ، ویسے بھی جو آدمی خود لکھتا ہے، وہ اپنی تحریر کی پروف ریڈنگ نہیں کر سکتا، لہٰذا یہی بہت ہے کہ آپ ’’التوحید‘‘ کا مطالعہ فرماتے ہیں ، اس پر آپ کا شکریہ اور آپ کے ذوقِ سلیم پر جو چیز گراں گزرتی ہے، اس پر معذرت، تاہم پڑھنا ہے تو
Flag Counter