Maktaba Wahhabi

252 - 924
اعتراضات کا رد پیش کیا تو قادیانی جریدہ ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ نے اس پر تعاقب کیا تو رب کی مدد سے اس کا مدلل جواب دیا۔ راقم نے حافظ محمد دین تلمیذ مفتی محمد صدیق رحمہ اللہ کے حالات قلم بند کیے، اس پر حرفے چند لکھوانے کے لیے ستمبر ۲۰۱۲ء میں ان کے گھر حاضر ہوا۔ خوب تواضع کی اور قادیانیت کے رد میں عام فہم دعوتی تحریری انداز کو خوب سراہا اور حرفِ چند میں اس کا اظہار بھی ان الفاظ میں کیا: ’’مرزائیت سے متعلق ان کے مضامین کوبالخصوص لائقِ مطالعہ سمجھا جاتا ہے، اس موضوع کو وہ جس اسلوب میں زیرِ بحث لاتے ہیں وہ انھیں کا حصہ ہے۔‘‘ آپ نے مجھے حکم دیا، جب بھی لاہور آؤ تو وقت نکال کرملتے رہنا، اس کے بعد جب کبھی لاہور جاتا، فون پر اطلاع کرتا اور وقت مقرر پر حاضر ہوتا رہا۔ عزیزم عبدالرؤف آف جدہ کو بزرگوں کا ادب اور خدمت کا جذبہ اپنے والد حافظ محمد دین رحمہ اللہ سے ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے مداحوں میں سے تھے۔ ان کے حکم پر حافظ عبدالماجد نے مجھ سے فون پر رابطہ کیاکہ بھٹی صاحب کا خطبہ جمعہ لے کر دیں ۔ میں نے فون پر رابطہ کیا تو فرمانے لگے! ’’میں خطیب تو نہیں ۔‘‘ فوراً عرض کیا: احبابِ جماعت اس بہانے آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ نے ہامی بھر لی۔ ۲۴؍ جولائی ۲۰۱۵ء ء کا خطبہ جمعہ چک ۲۳ الف جنوبی(سرگودھا)میں ارشاد فرمایا۔ سرگودھا شہر کی جماعت(مولانا)عرفان اللہ ثنائی کی قیادت میں ملاقات کے لیے تشریف لائی۔ اسلاف کے حالات کا تذکرہ کرتے رہے اور آہ بھر کر کہا ’’پہلے ہم قلت میں تھے تو آپس میں پیارومحبت تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی تھے، جبکہ موجودہ دور میں کثرت سے بھی ہیں ، لیکن باہمی الفت ویگانگت میں کمی آگئی ہے، اس سے تو تھوڑے ہی بہتر تھے۔‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ قومی سیاسیات پر گہری نظر رکھتے تھے، آپ ملی و قومی اور سماجی تحریکوں کے پس منظر سے بہ خوبی واقفیت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ تحریکِ آزادی کے موضوع پر گفتگو شروع ہوئی تو فرمایا کہ مسلم لیگ نے اپنے کسی اجلاس میں قرار داد پیش نہیں کی کہ پاکستان بن گیا تو اس میں اسلام کے قانون کا نفاذ ہوگا۔ میں نے برجستہ عرض کی کہ مسلم لیگ کا کونسا ایسا سیاسی جلسہ تھا، جس میں اسٹیج سے نعرہ نہیں گونجا: پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الا اﷲ؟ برجستہ مسکرا کر کہنے لگے! ہم نے بھی یہ نعرے سن کر تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ فرید کوٹ جیل میں دو دفعہ قید رہے، ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ قافلۂ حدیث کے سالاروں اور سپاہیوں کے حالات قلم بند کرتے ہوئے پیدایش، اساتذہ، تلامذہ اور تصانیف کا تذکرہ کرنے پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ طالب علمی و تدریسی، دعوتی و تحریکی مشکلات، خدمات اور اہم واقعات کو اس طرح ربط سے بیان کرتے کہ قاری یوں محسوس کرتا کہ وہ ان کو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہے، جب تک وہ مکمل پڑھ نہ لے، اسے چین نہیں آتا۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کی ملازمت سے علاحدگی کے بعد انھوں نے خود کو تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر
Flag Counter