Maktaba Wahhabi

238 - 924
’’اس سلسلے کی ایک کتاب کا یہ موضوع بھی زیرِ بحث آئے گا کہ برصغیر کی سیاسی تحریکوں میں اہلِ حدیث نے کس قدر حصہ لیا اور کس انداز سے لیا۔ کون کون سی سیاسی اور علمی جماعتیں اہلِ حدیث اکابر کی تجویز و تحریک سے قائم ہوئیں ۔ آزادیِ برصغیر اور قیامِ پاکستان کے لیے اہلِ حدیث کی تگ و تازِ مجاہدانہ کب شروع ہوئیں اور کس رفتار سے آگے بڑھیں ، کس بزرگ نے کس صورت میں استخلاصِ وطن کے لیے کوششیں کیں اور برطانوی حکومت کی طرف انھیں کن کن اذیت ناک سزاؤں کا مستوجب قرار دیا گیا۔‘‘ (کاروانِ سلف، ص: ۹، ۱۰) جب ہم اس کے بعد کی ان کی تصنیفات پر نظر ڈالتے ہیں تو بلامبالغہ یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جتنا انھوں نے اپنا منصوبہ یہاں ذکر کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ کام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی۔ ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی درجنوں کتابیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ۱۹۹۹ء سے قبل وہ اس سلسلے میں غافل تھے اور انھوں نے ’’تاریخِ اہلِ حدیث‘‘ کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فریضہ تو انھوں نے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور کے اندر رہ کر بھی انجام دیا۔ البتہ اس کا حجم کم ہے۔ ادارۂ مذکورہ سے انسلاک کے زمانے میں انھوں نے ’’تحریکِ اہلِ حدیث‘‘ کی تاریخ کے سلسلے میں جو کام کیا، اس کی تفصیل یہ ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی خدمات پر ’’ارمغانِ حنیف‘‘ مرتب کی۔ مولانا عبدالقادر قصوری رحمہ اللہ اور اُن کے خاندان کی خدمات کو ’’قصوری خاندان‘‘ میں بیان کیا۔ نیز ’’فقہائے ہند‘‘ میں اہلِ حدیث فقہا کا تذکرہ جا بجا موجود ہے۔ اسی دوران میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اردو دائرہ ’’معارفِ اسلامیہ‘‘ کے لیے جو مقالات سپردِ قلم کیے، ان میں مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد حنیف ندوی اور مولانا سید ابوبکر غزنوی رحمہم اللہ ایسے اہلِ حدیث علما کے بارے مقالات تحریر کیے۔ قائدِ اہلِ حدیث میاں فضل حق رحمہ اللہ(مرحوم )کے بارے میں ’’میاں فضل حق اور ان کی خدمات‘‘ تصنیف کی۔ ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ اور ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ میں اہلِ حدیث حضرات کا تذکرہ لکھا۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے پہلے وہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور سے منسلک تھے۔ اس دور میں بھی وہ تحریکِ اہلِ حدیث کی تاریخ سے تعلقِ خاطر رکھتے تھے۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نے تحریری معاملے میں میری بہت رہنمائی کی اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کے فرمان کے مطابق میں نے حضرت نواب سید صدیق حسن خان صاحب(مرحوم)کی فارسی کتاب ’’اتحاف النبلائ‘‘ سے متعدد محدثین و فقہا اور ائمہ کرام کے حالات اردو میں منتقل کیے، جو ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہوئے۔ بہت سے علمائے کرام پر بھی ’’الاعتصام‘‘ کے ابتدائی دور میں میرے مضامین مسلسل چھپتے رہے۔‘‘(گزر گئی گزران، ص: ۲۱۵) ایک دوسرے مقام پر انھوں نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
Flag Counter