Maktaba Wahhabi

217 - 924
تھے اور مسلم لیگی بھی، اور سیاسی اعتبار سے وہ انتہائی ہنگامہ خیز دور تھاِ لیکن خطبہ جمعہ اور جماعت کے عام جلسوں میں مولانا عطاء اللہ رحمہ اللہ اپنے خیالات و افکار کی وضاحت وتبیین پوری جراَت اور آزادی سے کرتے تھے۔ نمازِ جمعہ کے بعد اگر کوئی شخص ان کی کسی بات سے اختلاف کا اظہار کرتا تو اس کا جواب دینے میں ان کو کبھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ فیروز پور میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ مخالف و موافق ان کا احترام کرتے تھے۔ بریلوی اور دیو بندی حضرات بھی ان کی خدمت میں آتے اور نہایت اکرام و تکریم کے ساتھ ان سے مخاطب ہوتے تھے ۔ان کے خلاف کبھی کسی نے سیاسی یا مسلکی معاملے میں ہنگامہ آرائی نہیں کی اور کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی، جس سے ان کا وقار مجروح ہوا ہو۔ (اشاعت خاص :ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور۔ بیاد: مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ۔طبع اوّل: مارچ ۲۰۱۵ء، ص: ۱۵۱) مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نام ہے اصول و آدرش کا۔ دنیائے تاریخ و صحافت میں ایک معتبر محقق کا۔ انھوں نے ایک باضمیر قلم کار کی حیثیت سے خطرات سے کھیلتے ہوئے حق گوئی اور راست فکری کی قابلِ رشک مثالیں قائم کیں ۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے پلیٹ فارم سے ان کا کردار ناقابلِ فراموش رہا ہے۔ انھوں نے ستر(۷۰)سالہ تحریکی، جماعتی، تنظیمی، صحافتی، علمی، ادبی، تبلیغی، تاریخی اور تحقیقی کیریئر کے دوران اللہ کے فضل و کرم سے بے حد شہرت حاصل کی۔ ان کی تنظیمی خدمات شفاف اور بے داغ ہیں ۔ وہ ہمیشہ اصولوں پر ڈٹے رہے۔ تاریخ اہلِ حدیث اور افکارِ اہلِ حدیث پر ان کی کتب: برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش، کاروانِ سلف، دبستانِ حدیث، گلستانِ حدیث، چمنستانِ حدیث، بوستانِ حدیث، برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن، تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ ، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ، تذکرہ حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، میاں فضل حق رحمہ اللہ اور ان کی خدمات، ارمغانِ حنیف وغیرہ۔۔۔ چالیس(۴۰)سے زائد اور پچاس(۵۰)ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ضخیم وعلمی سرمائے کے منصہ شہود پر آنے سے ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ انھوں نے اکابرِ حق اور آیندہ نسلوں کے درمیان حائل ہونے اور اپنی شخصیت کا بت کھڑا کرنے کے بجائے اسلاف کی امانت کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں اپنے آپ کو مٹائے رکھا، تاکہ نوجوان نسل پوری آزادی اور شعور کے ساتھ حالات کا جائزہ لے، نظریات پر غور کرے اور شعوری بنیادوں پر اپنے اسلاف کی سچائی کو تسلیم کرے۔ حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی ذات کا ایک عرفانی پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے اسلاف کی فکر اور ان کے علمی خزائن کو نوجوانوں میں منتقل کر کے ایک مضبوط اجتماعیت پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کی، جو آج اپنی دعوت و مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ بقول شاعر: ؎ مثلِ شمع بزمِ ہستی میں بسر کر زندگی تاکہ تیرے سوز سے سارے جہاں میں نور ہو
Flag Counter