Maktaba Wahhabi

110 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی ذات خود ایک انجمن تھی اور ایسا بلند مقام اور ایسی اعلیٰ قابلیت رکھنے والی شخصیتوں میں آخری شمع تھی۔ اب ایسی شخصیت کا پانا صدیوں تک محال و مشکل ہوگا۔ ایسی عظیم المرتبت شخصیتوں کے متعلق ہی شاعرِ مشرق نے فرمایاتھا: ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی زندگی گوناگوں مشاغل سے معمور رہی، تعلیم سے فراغت پائی، محکمہ انہار میں ملازمت کی، پھر کچھ مدت مدرسہ مرکز الاسلام لکھوکے میں تدریس فرمائی۔ ملک تقسیم ہوا، پاکستان تشریف لائے، چک۵۳؍ گ ب ڈھیسیاں جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں آباد ہوئے اور کچھ عرصہ زمیندارہ کیا، پھر لاہور کا رخ کیا۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے آفس سیکرٹری بنائے گئے اور ساتھ ہی جمعیت کے آرگن ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے معاون مدیر بھی(مدیرِ اعلیٰ: مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ تھے)رہے، بعد ازاں مولانا ندوی مرحوم جب ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور سے وابستہ ہوگئے تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت سونپی گئی اور آپ ۱۷ سال تک ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر رہے۔ اس کے بعد ’’الاعتصام‘‘ سے علاحدگی اختیار کی اور اپنا سہ روزہ اخبار ’’منہاج‘‘ جاری کیا۔ ’’منہاج‘‘ زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہ سکا تو بھٹی صاحب ہفت روزہ ’’توحید‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے، جو پروفیسر سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ نے جاری کیا تھا۔ ’’توحید‘‘ بھی زیادہ مدت جاری نہ رہ سکا۔ اسی دوران میں بھٹی صاحب، مولانا محمد حنیف ندوی اور سید رئیس احمد جعفری رحمہم اللہ کی سعی و کوشش سے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ ادارے کے آرگن ماہنامہ ’’المعارف‘‘ کی ادارت انھیں سونپی گئی اور کئی علمی اور تحقیقی کتابیں لکھیں ۔ انہی ایام میں ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کی ایک سال تک ادارت کی اور اس مدت میں اہلِ حدیث کا ’’حرمین شریفین نمبر‘‘ بڑی شان و شوکت سے شائع کیا۔ ۳۲؍ سال تک ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ رہ کر ریٹائر ہوئے اور بقیہ زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کر دی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اب وہاں ہیں ، جہاں ایک روز سب نے جانا ہے۔ مگر جن لوگوں کو ان کے ساتھ کام کرنے یا اُن سے ملنے جلنے کا موقع ملا، وہ ان کی دوستی، مرنجاں مرنج اندازِ طبع اور ان کی شرافت و فطانت اور ذکاوت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے حق میں بارگاہِ ایزدی میں کہہ رہے ہوں گے: ’’رب اغفر و ارحم وأنت خیر الرحمین‘‘ مولانا محمداسحاق بھٹی، مولانا سید محمد داود غزنوی، حضرت العلّام مولانا حافظ محمد گوندلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ ، جیسے آسمانِ علم کے آفتاب و ماہتاب ہستیوں کے نقوشِ تاباں کی آخری یادگار اور قیمتی کڑی تھے۔ شرافت، وضع داری، فکر و فہم، اعتدال، میانہ روی، حق شناسی اور علومِ حقائق کے بحر بیکراں کی شناوری میں اپنی مثال آپ تھے۔ ؎ مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دہر میں جن کے نشاں کبھی
Flag Counter