Maktaba Wahhabi

108 - 924
وہ ایک صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اسلوبِ نگارش میں مختلف تراکیب کا استعمال، بات سے بات نکالنے کا سلیقہ اور طنز و تنقید کے عمدہ اسالیب اپنے قارئین کو مسحور رکھیں گے۔ تاہم ان کا اسلوب طنز و تعریض کبھی کبھی غیر مناسب انداز اختیار کر جاتا تھا۔ آخری دور میں ان پر صوفیت کا بڑا غلبہ ہو گیا تھا۔ وہ بعض ایسے صوفیانہ افکار و خیالات کی تائید کرتے نظر آتے تھے، جن کی مسلک اہلِ حدیث میں کوئی گنجایش نہیں نکل سکتی تھی۔ راقم الحروف کے ساتھ ان کے علمی روابط گذشتہ ۱۶/ ۱۷ برسوں سے قائم تھے۔ میرے نام ان کا پہلا مکتوب گرامی ۱۹۹۸ء کا تحریر کردہ ہے۔ میرے پاس ان کے کئی مکاتیب ہیں ۔ گزشتہ چند برسوں سے برقی میڈیا کی مہربانی نے جہاں بہت سے فوائد پہنچائے ہیں ، وہیں ہمیں بن کاغذ و قلم کی دنیا میں بھی دھکیل دیا ہے۔ اس لیے سلسلۂ مکاتبت تو کمزور پڑ گیا، مگر چند بار موبائل ہی پر خیر و عافیت دریافت کر لی گئی۔ اس کے علاوہ راقم کو کئی بار ان سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ جب بھی لاہور جانا ہوا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ اپریل ۲۰۰۳ء میں ادارہ ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ’’برصغیر میں مطالعہ حدیث‘‘ کے زیرِ عنوان منعقدہ سیمینار میں بھی ہم اکٹھے رہے۔ بایں ہمہ مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے ایک بھرپور علمی زندگی گزاری۔ ان کی قلمی خدمات مسلّم ہیں ، جنھیں نہ تو فراموش کیا جا سکتا ہے اور نہ نظر انداز ہی۔ وہ مخالف و مواقف سبھوں کے لیے حوالہ بنتے رہے ہیں اور آیندہ بھی بنتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت کے حضور ہماری دعا ہے کہ وہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انھیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین
Flag Counter