Maktaba Wahhabi

106 - 924
کے قلم سے ایک گراں قدر علمی ارمغان ہے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کو بچپن ہی سے کسبِ دینی کا ذوق تھا اور اس ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کے دادا میاں محمد رحمہ اللہ کا نمایاں کردار تھا۔ ابتدائی تعلیم بھی اپنے دادا رحمہ اللہ ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد مختلف درس گاہوں میں مختلف علما سے کسبِ علم کیا۔ ان کے مشہور اساتذہ میں مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا اسماعیل سلفی، مولانا حافظ محمدگوندلوی رحمہم اللہ وغیرہم شامل ہیں ۔ وہ شروع ہی سے مصروفِ عمل و حرکت رہنے والوں میں سے تھے۔ ان کی جودتِ طبع نے آغازِ شباب ہی سے اپنے جوہر دکھانے شروع کیے۔ ان کا ابتدائی عہد سیاسی اعتبار سے انتہائی پُر آشوب عہد تھا۔ ادھر ہمارے مولانا رحمہ اللہ جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھ رہے تھے اور دوسری طرف برصغیر میں انگریزی استعماریت اپنے آخری دن گزار رہی تھی۔ ایسے مواقع پر عموماً غاصب حکومتیں اپنی سختی و مظالم میں اضافہ کر دیتی ہیں ۔ مگر مولانا موصوف اپنے دورِ جوانی میں تازہ تازہ قدم زن ہوئے تھے۔ انھیں بھی آزادی و انقلاب کا سودا سمایا۔ اپنی ریاست کی ’’پرجا منڈل‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے انھیں ’’پرجا منڈل‘‘ کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ اس کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جو بعد میں ہندوستان کے بھی صدر بنے۔ ’’پرجا منڈل‘‘ میں شرکت کرنے کی وجہ سے انھیں بعض مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ۱۹۳۹ء میں کچھ عرصہ فیروز پور جیل میں بھی قید رہے۔ آزادی وطن کے لیے دو مرتبہ انھیں جیل جانا پڑا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ۲۴ جولائی ۱۹۴۸ء کو مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے ہندوستان سے ترکِ سکونت کرکے ہمیشہ کے لیے پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا۔[1] یہاں آکر انھوں نے خود کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے نظم و نسق سے وابستہ کیا۔ اس جماعت کے لیے مختلف خدمات انجام دیں ۔ جماعتی نظم و نسق کے دوران میں انھیں مولانا محمد داود غزنوی، مولانا اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہم اللہ وغیرہم سے بڑی کثرت سے استفادے کا موقع ملا۔ ان کی فکری و نظری تربیت میں ان بزرگوں کا بڑا دخل رہا۔ ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا اجرا ہوا تو اس کے معاون مدیر بنے۔ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ اس کے اولین مدیر تھے۔ ۱۹۵۱ء میں مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کے مستعفی ہونے کے بعد مولانا بھٹی رحمہ اللہ ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر بن گئے۔ اکتوبر ۱۹۶۵ء کو پاکستان کے مشہور اسلامی تحقیقی ادارے ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے بطور ریسرچ اسکالر منسلک ہوئے۔ اس زمانے میں اس کے ڈائریکٹر شیخ محمد اکرام تھے۔ یہاں مختلف ذوق و مزاج کے اہلِ علم مجتمع تھے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کو یہاں مولانا حنیف ندوی، مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی، رئیس احمد جعفری رحمہم اللہ جیسے اصحابِ علم کے
Flag Counter