Maktaba Wahhabi

104 - 924
بے نیاز اس نام نے دلوں میں گھر کرنا شروع کیا تو کرتا ہی چلا گیا۔ انھوں نے ظاہری جلال کے بجائے اپنی انکساری سے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا اور پھر وہیں اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ ہمارے دور کا یہ کتنا بڑا اَلمیہ ہے کہ ہمارے ’’دینی قائدین‘‘ میدانِ صحافت میں کودتے ہیں تو اپنے ہی رسالے کے ٹائٹل پر اپنا نام اَن گنت سابقوں اور لاحقوں کے بغیر شائع ہی نہیں کر پاتے۔ یقینا ہمیں مستثنیات کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی دکھلائی دے گی، لیکن ایک بھاری بھر کم عدد اُن لوگوں کا بھی ہوگا جن کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے مجلات و رسائل ان کے القاب کے بوجھ تلے دفن ہوئے جا رہے ہوں گے۔ یہی حال ان کی تصنیفات کا بھی ہوتا ہے۔ ہماری تو سمجھ سے بالا تر ہوتا ہے کہ جب آپ ایک کتاب لکھتے ہیں (اگر واقعتاً خود ہی لکھتے ہیں )اس کی طباعت کا اہتمام آپ ہی کی سرپرستی اور نگرانی میں آپ کے ’’مریدانِ باصفا‘‘ کرتے ہیں تو آپ کا ضمیر اس ملمع سازی کی کیسے اجازت دیتا ہے، جو آپ کی کتاب کے ٹائٹل پر آپ کے نام کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ جناب محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، اس قسم کی ہر ملمع سازی سے پاک تھے۔ انھیں اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان کے قلم نے ’’محمد اسحاق بھٹی‘‘ کو ہر قسم کے لقب اور سابقے و لاحقے سے بے نیاز کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے کارہائے نمایاں سے ’’محمد اسحاق بھٹی‘‘ کو جس بلند تر مقام پر فائز کر دیا تھا، کوئی سا بھی سابقہ یا لاحقہ اس میں کمی تو کر سکتا تھا، اضافہ ہر گز نہیں ۔ ان کی انکساری نے انھیں عظمتوں کا حامل ہی نہیں ، عظمت گر بھی بنا دیا تھا۔ کتنی ہی گم نام شخصیات ان کے قلم کی بدولت حیاتِ جاودانی سے ہم کنار ہوگئیں ۔ جناب محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا جیتا جاگتا وجود ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ہماری نظروں سے اُوجھل ہوگیا۔ وہ ’’قافلۂ زندان‘‘ سے بچھڑ گئے، لیکن انھوں نے اس حیاتِ جاودانی کو پالیا جو انھیں ان کی عظیم کتابوں کے قارئین کے دلوں میں زندہ رکھے گی۔ محققین ان کی سرمدی زندگی سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ وہ تعلیم گاہوں میں زندہ رہیں گے، لائبریریوں میں وہ چلتے پھرتے دکھلائی دیں گے، اگر وہ بک شیلفوں سے نکل کر باہر نہ بھی آپائے، کسی طالبِ علم کی چٹائی، بستر اور میز پر فروکش نہ بھی ہوئے توبھی وہ وہیں ایستادہ جھلملاتے رہیں گے۔ ان کی یہ پر انوار شخصیت ان کی کتابوں کی صورت تابندگیوں کو بکھیرے گی، علم کی روشنی سے ماحول کو منور کرے گی، اذہان و قلوب کی تنویر کا اہتمام کرے گی اور نفوس کی تہذیب کا فریضہ بجا لاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں ہر آن نازل ہوتی رہیں ان کی لحد پر، مغفرتوں کی پھوار ہر لحظہ ان پر برستی رہے اور ان کی قبر جنت کا ٹکڑا بن جائے ان کے لیے۔ وہ برزخی زندگی میں بھی شاد کام ہوں اور آخرت میں انبیا و رسل، اتقیا و صلحا اور شہدا کی معیت انھیں نصیب ہو۔ دنیا سے کہیں زیادہ آخرت میں سرخ روئی ان کا مقدر بنے اور جنت میں بلند تر مقام کے وہ سزا وار ٹھہریں ۔ آمین یا رب العالمین۔
Flag Counter