Maktaba Wahhabi

25 - 924
نقشِ اوّل ’’ارمغانِ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘ راہ ہستی کا یہ دستور مقدر ہے جمال نقش رہ جاتے ہیں انسان گزر جاتا ہے جب چمکتے ہیں اندھیرے میں وہ نقش ہمہ رنگ پھر کسی فرد کی عظمت کا خیال آتا ہے اس دنیا ئے فانی میں بسنے والے ہر انسان کا ہر لمحہ بتدریج اس کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔ زمانہ اسے مبلغ، محدث، مورخ، محقق، مقرر، مصلح، مربی ومحسن کے خطابات عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی سراپا علم و عمل، سراپا جہاد اور عالمِ انسانیت کے لیے سرچشمہ ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو محترم و مکرم ہو کر زندگی کے لمحات گزارتا ہے اور اس عالمِ فنا سے منہ موڑتا ہے تو اپنے پیچھے نہ بھلائے جا سکنے والے کارناموں کی ایک تاریخ رقم کر جاتا ہے۔ ایک پورا زمانہ، ایک پورا عہد اس کی شخصیت سے منسوب ہوجاتا ہے۔ مستقبل کے محرّر و مورخ اسے اوراقِ تاریخ میں یادگارِ زمانہ قرار دیتے ہیں : ؎ یادگارِ زمانہ ہیں ہم لوگ یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ مورخِ اہلِ حدیث علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی فروغِ علم وادب اور تاریخ و تحقیق کے لیے مساعی بے مثال ہیں ۔ انھوں نے جماعت اہلِ حدیث کی تاریخ کو محفوظ کرنے کی خاطر ماضی کے نا جانے کتنے ادوار اپنے انداز میں کھنگال ڈالے۔ نا معلوم کتنے گمشدہ آثار کا سراغ لگایا اور ان کی چمک و دمک سے دامنِ تاریخ کو سجایا، سنوارا اور اپنے اس طرزِ عمل سے بہ توفیقِ الٰہی نئی زندگی عطا کی، جس کی ترقی اور سج دھج کا چرچا چار دانگِ عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کا شمار اُردو ادب کی تاریخ کے درخشاں ستاروں میں تو ہوتا ہی ہے، لیکن بیسویں صدی کے اس دور میں تو انھیں سب سے بڑا محقق، مورخ اور زود نویس قرار دینے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ اس پر آشوب زمانے میں قدیم علم اور اخلاقیات و آداب سے مزین اسلاف کی تاریخ کو سپردِ قرطاس کرنے، اپنے شاہکار کالموں کے ذریعے سے نوجوان نسل کی انگلی پکڑکر انھیں اپنے عالی مرتبت بزرگوں ، نیک سیرت اجداد اور عظیم اولیائے کرام سے ملوانے اور ان کے شفیق راہنما ہونے میں کوئی دوسری بلند پایہ ادبی شخصیت اُن کی ہم پلّہ دکھائی نہیں دیتی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ یقینا ایک غیر معمولی عالم اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے جماعت اہلِ حدیث پاکستان کا ایک نابغہ(Genius)تھے۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو تقریباً اکیانوے
Flag Counter