Maktaba Wahhabi

151 - 531
’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب تم میں سے کسی کو یہ خدشہ ہو کہ صبح طلوع ہونے والی ہے تو ایک رکعت پڑھ لے اس سے اس کی ساری پڑھی ہوئی نماز وتر ہو جائے گی۔‘‘ رمضان اور غیر رمضان میں رات کی نماز کی رکعات کی تعداد معین نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد اور بعض دیگر اوقات میں تئیس رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے گیارہ رکعات پڑھیں۔ یہ سب کچھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل سے عہد فاروقی میں ثابت ہے۔ بعض سلف رمضان میں چھتیس رکعات اور تین وتر پڑھتے اور بعض سے اکتالیس رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے، چنانچہ سلف کے حوالہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے: ’’اس مسئلہ میں کافی گنجائش ہے۔‘‘انہوں نےیہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ ’’افضل یہ ہے کہ جس کی قراءت ، رکوع اور سجود لمبے ہوں وہ تعداد کم کر دے اور جس کی قراءت، رکوع اور سجدے چھوٹے ہوں، وہ رکعات کی تعداد میں اضافہ کر لے۔‘‘یہ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا مفہوم ہے۔ جو شخص اس مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر غور کرے گا تو اسے یہ معلوم ہو جائے گا کہ سب سے افضل صورت یہ ہے کہ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھی جائیں کیونکہ اکثر و بیشتر حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا، نمازیوں کے لیے بھی اسی میں سہولت ہے اور خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون بھی اسی میں زیادہ ہے اور اگر کوئی اس سے زیادہ رکعات پڑھنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ امام کے ساتھ قیام رمضان کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ امام کے ساتھ آخر تک قیام میں شرکت کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ) (سنن ابي داود‘ شهر رمضان‘ باب في قيام شهر رمضان‘ ح: 1375 و جامع الترمذي‘ ح: 806 وسنن النسائي‘ ح: 1365 وسنن ابن ماجه‘ ح: 1327 ومسند احمد: 5/159 واللفظ له) ’’آدمی جب آخر تک امام کے ساتھ قیام کرے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے۔‘‘ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس مہینے میں تمام اقسام کی عبادات خوب محنت اور کوشش سے سر انجام دیں، زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کریں، تدبیر اور غوروفکر کے ساتھ قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں، کثرت کے ساتھ تسبیح، تہلیل، تحمید، تکبیر، استغفار اور شرعی دعائیں کریں، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور دعوت الی اللہ کا کام بھی خوب کریں، فقراء و مساکین کے ساتھ ہمدردی و غم گساری کریں، والدین کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں، صلہ رحمی، مہمان نوازی، مریض کی عیادت اور اس طرح کے نیکی کے دیگر کاموں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں کیونکہ مذکورہ بالا بیان کردہ حدیث میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی پڑھ آئے ہیں: ( يَنْظُرُ اللّٰهُ إِلَى تَنَافُسِكُمْ، وَيُبَاهِي بِكُمْ مَلَائِكَتَهُ، فَأَرُوا اللّٰهَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مِنْ حُرِمَ فِيهِ رَحْمَةَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ ) (مجمع الزوائد: 3/142 الصيام‘ باب في شهور البركة وفضل شهر رمضان‘ ح: 4883 وكنز العمال: 23692‘ باختلاف يسير) اللہ تعالیٰ، (اس مہینے میں) نیکی اور بھلائی کے کاموں میں، تمہارے ذوق و شوق اور رغبت کو دیکھتا ہے اور اپنے
Flag Counter