Maktaba Wahhabi

365 - 531
یوم عید ایام تشریق میں سے نہیں ہے سوال: بعض لوگ منیٰ میں صرف ایک رات یعنی گیارہ کی رات قیام کرتے ہیں اور گیارہ تاریخ کو وہ بارہ کی بھی رمی کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح انہوں نے دو دن گزار لیے ہیں کیونکہ عید کے دن کو بھی وہ ایام تشریق میں سے شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے عید (قربانی) کے دن اور اس کے بعد دوسرے دن جو کہ گیارہ تاریخ کا دن ہے رمی کر لی ہے اور یہی وہ دو دن ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے: (فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوْمَيْنِ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ) (البقرة 2/203) ’’ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل پڑے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔‘‘ اور اس طرح وہ گیارہ تاریخ کو منیٰ چھوڑ جاتے ہیں، تو کیا یہ شرعا جائز ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انسان یوم عید کو بھی ان دو دنوں میں شمار کرے۔ امید ہے اس مسئلہ کی دلیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں گے؟ جواب: ان دونوں سے مراد جنہیں منیٰ میں بسر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جلدی کرنے والوں کو منیٰ سے رخصت ہو جانے کی اجازت دی ہے، عید کا دوسرا اور تیسرا دن ہے کیونکہ یوم عید تو یوم حج اکبر ہے اور ایام تشریق عید کے دن کے بعد کے تین دنوں کو کہتے ہیں اور یہی دن رمی جمرات اور اللہ عزوجل کے ذکر کے دن ہیں۔ جو شخص جلدی کرنا چاہے تو وہ بارہ تاریخ کے غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ سے کوچ کر جائے، لیکن اگر سورج غروب ہو گیا تو پھر منیٰ ہی میں رات بسر کرنا واجب ہو گا اور اسے تیرہ تاریخ کو بھی رمی کرنا پڑے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا تھا۔ جو شخص گیارہ تاریخ کو منیٰ سے روانہ ہو جائے تو اس نے ایک واجب یعنی رمی کو ترک کیا ہے، لہذا اس پر دم لازم ہے جسے مکہ میں فقراء کے لیے ذبح کیا جائے اور اس نے بارہویں رات کا منیٰ میں جو قیام ترک کیا تو اس کی وجہ سے اسے مقدور بھر صدقہ کرنا چاہیے ،نیز اس کوتاہی اور بے وقت جلد بازی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار بھی کرنا چاہیے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ بارہ تاریخ کو منیٰ سے چلا گیا۔۔۔ سوال: جب کوئی حاجی عجلت کی نیت سے بارہ تاریخ کے غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے چلا جائے لیکن منیٰ میں کام کی وجہ سے اسے غروب آفتاب کے بعد واپس آنا پڑے تو کیا اسے جلدی سے نکل جانے والوں میں شمار کیا جائے گا۔ جواب: ہاں اسے جلدی کرنے والا شمار کیا جائے، کیونکہ اس نے حج کو ختم کر دیا اور دوبارہ منیٰ میں آیا ہے تو وہ کام کی وجہ سے نہ کہ حج کی وجہ سے اور یہ عجلت کے خلاف نہیں ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
Flag Counter