اور اگر ان دونوں معاوضوں میں سے ایک ڈھلا ہوا سونا یا نقدی ہو اور دوسرا ڈھلی ہوئی چاندی یا نقدی ہو تو ان کی مقدار میں تفاوت جائز ہے بشرطیکہ مجلس معاہدہ میں ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پہلے فریقین قبضہ کر لیں اور جو صورت اس حکم کے مخالف ہو گی وہ سود ہو گی اور اس کے مطابق عمل کرنے والا اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہو گا:
(ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ )(البقرة 2/275)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کو دیوانہ بنا دیا ہو۔‘‘
۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
سونے کی بیع میں فریقین کے قبضہ کا حکم
سوال: ایک شخص بینکوں کی معرفت سونے کی اینٹوں کی خریدوفروخت کرتا ہے، لیکن یہ شخص سونے کو اپنے قبضہ میں نہیں لیتا بلکہ اسے دیکھتا بھی نہیں ہے۔ جب ہم نے اسے یہ بتایا کہ یہ طریقہ جائز نہیں ہے تو وہ کہنے لگا کہ میرے پاس کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے جہاں میں اسے حفاظت سے رکھ سکوں اور مجھے چوری کا خدشہ ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس کی تجارت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: اگر محفوظ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سونا اپنے قبضہ میں لینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے تو پھر اس کے لیے یہ معاملہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ حرام سے بچنا واجب ہے اور اس سے بچنے کی تو اسے قدرت ہے کیونکہ اس کے لیے یہ ضروری تو نہیں کہ وہ صرف یہی تجارت کرے، لہذا اس کے لیے واجب ہے کہ یا تو وہ اس تجارت میں تقابض کے شرعی تقاضا کو پورا کرے اور یا پھر اس تجارت کو چھوڑ دے۔
۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
مستعمل سونے کی نئے سونے سے فرق کے ساتھ بیع
سوال: ایک شخص زیورات کی خریدو فروخت کا کام کرتا ہے، ایک شخص اس کے پاس مستعمل سونا لے کر آتا ہے تو وہ اس سے خرید لیتا اور ریالوں میں اس کی قیمت بتا دیتا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ اسی جگہ اور اسی وقت قیمت ادا کرے، پرانا سونا بیچنے والا اس سے نیا سونا خرید لیتا ہے، اس کی قیمت بھی بتا دی جاتی ہے اور مشتری فرق اپنی طرف سے ادا کر دیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے یا ضروری ہے کہ وہ پہلے مستعمل سونے کی قیمت ادا کرے اور پھر مشتری سے نئے سونے کی قیمت وصول کرے؟
جواب: اس صورت میں یہ واجب ہے کہ مستعمل سونے کی قیمت ادا کی جائے پھر مستعمل سونا بیچنے والے کو اختیار ہو گا کہ وہ اسی سے یا کسی اور سے نیا سونا خریدے اور اگر اسی سے خریدے تو نئے سونے کی قیمت ادا کر دے تاکہ مسلمان سود والی ردی جنس کو اس کی عمدہ جنس سے اضافہ کے ساتھ بیچ کر سود کا ارتکاب نہ کرے جو کہ حرام ہے۔ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل مقرر کیا تو وہ آپ کے پاس بہت عمدہ کھجوریں لے کر
|