ایصال ثواب کی نیت سے کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن میت کے حق میں دعا کرنا ہی سب سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔[1]
۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
عقیقہ کو ساتویں دن سے مؤخر کرنا خلاف سنت ہے
سوال: بچی کی وفات کے بعد عقیقہ کیا گیا جب کہ وفات کے وقت اس کی عمر ڈیڑھ سال تھی، کیا یہ عقیقہ صحیح ہے؟ کیا یہ بچی آخرت میں اپنے والدین کے لیے نفع بخش ہو گی، رہنمائی فرمائیں؟
جواب: ہاں یہ عقیقہ ہو جائے گا لیکن اسے پیدائش کے ساتویں دن سے زیادہ مؤخر کرنا خلاف سنت ہے، ہر وہ بچہ یا بچی جو چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے، اس کی وفات پر صبر کرنے والے اس کے مسلمان والدین کو اللہ تعالیٰ اس سے نفع پہنچائے گا۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
استطاعت نہ ہو تو عقیقہ ساقط ہے
سوال: میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کا عقیقہ نہ کر سکا تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: اگر آپ کو اس کی استطاعت نہیں تو آپ کو کوئی گناہ نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ) (التغابن 64/16)
’’سو جہاں تک ہو سکے، اللہ سے ڈرو۔‘‘
نیز فرمایا:
(لَا يُكَلِّفُ ٱللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا) (البقرة 2/286)
’’اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وَإذَا أمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ) (صحيح البخاري‘ الاعتصام بالكتاب والسنة‘ باب اقتداء بسنن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘ ح: 6288 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فرض الحج مرة...الخ‘ ح: 1337
|