Maktaba Wahhabi

495 - 531
دوکان کے پاس آنے سے پہلے بھی اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کے بجائے بارہ یا اس سے کم یا زیادہ لے گا اور یہ اتفاق کرنے کے بعد دوکان دار کے پاس آتے ہیں تاکہ اس کے لیے اس حیلہ کو عملی جامہ پہنا دیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’’حیلہ ثلاثیہ‘‘ سے موسوم کیا ہے اور یہ بلاشبہ ربا الفضل اور ربا النسیئہ کے لیے ایک حیلہ ہے جو کہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ کیونکہ حیلہ سازی سے کوئی حرام چیز مباح نہیں ہو جاتی بلکہ حیلہ سازی سے اس کی خباثت اور گناہ میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب اس طرح حیلہ سازوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس طرح دھوکا دینا چاہتے ہیں جس طرح بچوں کو دھوکا دے رہے ہوں، اگر اس حیلہ سازی کے بجائے صاف صاف ارتکاب کرتے تو گناہ اس سے کم تر ہوتا۔‘‘انہوں نے یہ بالکل سچ فرمایا ہے کہ حیلہ باز در حقیقت منافق کی طرح ہے جو اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتا ہے، حالانکہ وہ کافر ہوتا ہے۔ اور اس طرح سود کے بارے میں حیلہ سے کام لینے والا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بیع کے لیے ایک صحیح اور حلال طریقہ استعمال کر رہا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ ادھار کی وجہ سے سودا زیادہ قیمت پر بیچنے کا حکم سوال: میں نے گاڑی بارہ ہزار ایک سو ریال میں خریدی تھی اور پانچ ماہ کے ادھار پر چودہ ہزار ایک سو ریال میں بیچ دی۔ امید ہے فتویٰ عطا فرمائیں گے کہ یہ بیع سودی ہے یا غیر سودی؟ جواب: اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح آپ نے ذکر فرمایا ہے تو یہ بیع جائز ہے بشرطیکہ آپ نے گاڑی خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے لی ہو اور پھر اسے بیچا ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ ۚ) (البقرة 2/282) ’’اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘ اور ’’صحیحین ‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی ایک زرہ رہن رکھی۔[1]‘‘ اس میں ان شاءاللہ سود نہیں ہے خواہ ادھار کی صورت میں قیمت، نقد قیمت کی نسبت زیادہ ہو۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ کارکن کی نفع میں شرکت سوال: میرے ایک دوست نے فرنیچر کی ایک چھوٹی ورکشاپ کھولی ہے، جس کے لیے اس نے ایک کارکن کو بیرون ملک سے منگوایا ہے جس کے ساتھ ایک ہزار ریال ماہانہ تنخواہ طے کی گئی تھی لیکن اس کارکن کے سعودیہ پہنچنے پر فریقین نے اس پہلے معاہدہ کو ختم کر دیا اور از سر نو یہ معاہدہ کیا کہ ورکشاپ کا مالک اوزار، ہتھیار اور دیگر تمام ضروری سازوسامان مہیا کرے گا اور یہ کارکن کام کرے گا اور نفع دونوں میں نصف نصف تقسیم ہو جائے گا اس طرح اس کارکن کو اب پندرہ
Flag Counter