Maktaba Wahhabi

434 - 531
وہ اسے اپنے مصرف میں لانے کے لیے امانت کے نام سے لے گا تو یہ بھی قرض ہو گا جس کا وہ ضامن ہے۔ نفع ادا کرنے کی اس کے سوا اور کوئی صورت جائز نہیں کہ وہ اور بینک یا تاجر اس بات پر متفق ہو جائیں کہ وہ اس مال کو مضاربت کے لیے استعمال کرے گا اور نفع کا ایک معلوم و معروف حصہ ایک کے لیے اور باقی دوسرے کے لیے ہو گا، اس نفع کو ’’قراض‘‘ بھی کہتے ہیں اور یہ بالاجماع جائز ہے کیونکہ وہ دونوں نفع و نقصان میں شریک ہیں۔ اس معاہدہ میں بنیادی سرمایہ درحقیقت عامل کے ہاتھ میں امانت ہوتا ہے کہ اگر کسی افراط و تفریط کے بغیر تلف ہو جائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہے اور اسے اپنے کام کے عوض نفع کا صرف اتنا ہی معلوم حصہ ملتا ہے جو معاہدہ میں طے کر لیا گیا ہو۔ اس تفصیل سے شرعی معاملہ اور سودی معاملہ میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ قسطوں پر ادھار بیع سوال: نقد کی بجائے اگر ادھار اور قسطوں کی صورت میں ہونے کی وجہ سے قیمت زیادہ ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: مدت معلوم تک بیع جائز ہے بشرطیکہ وہ معتبر شرائط پر مشتمل ہو، اسی طرح قیمت بالاقساط ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ ۚ) (البقرة 2/282) ’’مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَليُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ) (صحيح البخاري‘ السلم‘ باب السلم في وزن معلوم‘ ح: 2240 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب السلم‘ ح: 1604) ’’جو شخص کسی چیز کی ادھار بیع کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ معلوم ناپ، معلوم وزن اور معلوم مدت کے لیے بیع کرے۔‘‘ اسی طرح’’صحیحین‘‘ میں موجود بریرہ کے قصہ[1] سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے مالک سے اپنے آپ کو نواوقیہ پر اس شرط پر خریدا کہ وہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کرے گی اور یہ قسطوں ہی کی بیع ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا، بلکہ اسے برقرار رہنے دیا اور اس اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں، ادھار ادا کی جانے والی قیمت نقد قیمت کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے اس سے زیادہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter