Maktaba Wahhabi

246 - 531
جواب: اہل علم نے’’رفث‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد عورتوں سے اختلاط اور اس سلسلہ کے اسباب و وسائل ہیں۔ فسوق سے مراد گناہ ہیں اور جدال سے مراد فضول لڑائی جھگڑا ہے یا جس بات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے واضح فرما دیا ہے تو اس میں جھگڑے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ’’جدال‘‘ میں ایسے تنازعات شامل ہیں جو حاجیوں کے لیے ایذاء کا باعث بنیں یا امن عامہ میں خلل ڈالیں یا جن سے مراد باطل کی دعوت دینا اور حق سے روکنا ہو اور وہ جدال جو احسن انداز سے ہو اور حق کو ثابت کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے ہو تو وہ شرعا جائز ہے اور اس جدال میں داخل نہیں جو ممنوع ہے۔ فسوق اور جدال سے حج باطل نہیں ہوتا لیکن ان سے حج، اجروثواب اور ایمان میں نقص ضرور آ جاتا ہے جب کہ تحلل اول سے قبل عورتوں سے اختلاط کی صورت میں حج باطل ہو جاتا ہے۔ حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت اور اپنے حج و عمرہ کی تکمیل کے لیے ان مذکورہ بالا امور سے اجتناب کرے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ جو شخص حج میں رفث اور تمام گناہ ترک کر دے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں سوال: حدیث میں آیا ہے: (مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ، فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب فضل الحج المبرور‘ ح: 1521 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل الحج والعمرة‘ ح: 1350) ’’جو شخص اللہ (کی رضا جوئی) کے لیے حج کرے اور پھر نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی گناہ کا کام کرے تو وہ اس طرح واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر حج کرنے والے کے حج سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ جواب: یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح ترین احادیث میں سے ہے۔ اس میں مومن کے لیے بشارت ہے کہ جب وہ صفت مذکورہ کے مطابق حج ادا کرے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا کیونکہ رفث اور فسوق کے ترک کا معنی یہ ہے کہ اس نے صدق دل سے توبہ کر لی ہے اور جو شخص توبہ کرے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ رفث سے مراد حالت احرام میں عورتوں سے اختلاط اور وہ قول و عمل ہے جو اس کا سبب بنے۔ فسوق سے مراد تمام گناہ ہیں، تو جو شخص حج میں رفث اور تمام معاصی چھوڑ دے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ معصیت پر اصرار کرنا بھی فسوق میں شامل ہے جو شخص معصیت پر ڈٹا رہے تو وہ فسوق کو ترک کرنے والا نہیں ہے۔ لہذا اس کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔ یہ حدیث اسی طرح ہے جیسے ایک دوسری حدیث میں ہے: (وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ) (صحيح البخاري‘ العمرة‘ باب وجوب العمرة وفضلها‘ ح: 1773 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل الحج والعمرة‘ ح: 1349) ’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘
Flag Counter