Maktaba Wahhabi

80 - 531
اجتماعی طور پر کلمہ طیبہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ سے تو یہ مروی ہے: (لَا تُتْبَعُ الْجِنَازَةُ بِصَوْتٍ وَلَا نَارٍ)(سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب في اتباع الميت بالنار‘ ح: 3171) ’’جنازہ کے ساتھ آواز بلند ہو نہ جنازہ کے ساتھ آگے کو لے جایا جائے۔‘‘ قیس بن عباد فرماتے ہیں (جو اکابر تابعین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے) کہ’’حضرت صحابہ کرام جنازے، ذکر اور جنگ کے وقت آواز پست رکھنا مستحب سمجھتے تھے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنازہ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا خواہ وہ قراءت کی صورت میں ہو، ذکر کی صورت میں یا کسی اور صورت میں، مستحب نہیں ہے، ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور صحابہ و تابعین و سلف سے بھی یہی منقول ہے، کسی نے اس مسئلہ میں مخالفت بھی نہیں کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حدیث و آثار کا علم جاننے والوں کو اس بات پر اتفاق ہے کہ خیر القرون میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بلند آواز سے جنازوں کے ساتھ کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت پڑھنا ایک قبیح بدعت ہے، اسی طرح اس موقع پر لوگوں کا یہ کہنا کہ ’’ بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھو یا اللہ کا ذکر کرو یا قصیدہ بردہ وغیرہ پڑھو، یہ سب بدعت ہے۔‘‘ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ شہداء اور بڑے لوگوں کی وفات پر خاموشی کے ساتھ کھڑا ہونا سوال: اقوام متحدہ میں جب کسی رکن ملک کے سربراہ کی وفات کی خبر آتی ہے تو وہاں سب لوگ مقتول کی وفات پر اظہار غم کے لیے لمحہ بھر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: بعض لوگ شہداء یا اکابر لوگوں کی وفات پر ان کی تعظیم و تکریم کے لیے کچھ دیر کے لیے جو کھڑے ہو جاتے ہیں، یہ ان بدعات و منکرات میں سے ہے جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام، اور سلف صالح کے دور میں قطعا کوئی رواج نہ تھا۔ یہ بات آداب توحید اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اخلاص تعظیم کے بھی منافی ہے۔ افسوس کہ بعض جاہل مسلمان بھی اس قسم کی بدعات میں کافروں کی پیروی کرتے، ان کی قبیح عادات کو اختیار کرتے اور اکابر و رؤسا کی تعظیم میں انہی کی طرح غلو سے کام لیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔[1] اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جن حقوق کی تعلیم دی ہے وہ یہ ہیں کہ جو مسلمان فوت ہو جائیں ان کے لیے دعا کی جائے، ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے، ان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے اور ان کی برائیوں کو بیان نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے آداب ہیں جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے اور مسلمانوں کے بارے میں خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ انہیں ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ اسلام نے اس بات کی ہرگز تعلیم نہیں دی اور نہ یہ ادب سکھایا ہے کہ وہ شہداء یا اکابر کی وفات پر بطور سوگ خاموش کھڑے ہوں بلکہ یہ بات اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
Flag Counter