Maktaba Wahhabi

399 - 531
دن قیام فرمایا تھا لیکن دوسرے عمرہ کے لیے آپ تنعیم تشریف نہیں لے گئے تھے، حالانکہ آپ نے مکہ مکرمہ کو رمضان ہی میں فتح فرمایا تھا مگر قتال کے خاتمہ کے بعد آپ عمرہ کے لیے تنعیم نہیں گئے بلکہ آپ نے عمرہ ذوالقعدہ میں غزوۂ طائف سے واپسی کے وقت ادا فرمایا۔ اس موقع پر مقام جعرانہ میں آپ نے قیام فرمایا اور وہاں ہی غنیمتوں کو تقسیم فرمایا تھا، اسی اثناء میں جعرانہ ہی سے ایک رات عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تھے اور پھر اسی رات عمرہ ادا کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو مکہ سے نکل کر تنعیم یا کسی اور دوسری جگہ نہیں جانا چاہیے تاکہ وہاں سے احرام باندھ کر ایک اور عمرہ کر سکے۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا تو اسے سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر انجام دیتے کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ آپ کو سب لوگوں سے زیادہ نیکی کا شوق تھا اور پھر آپ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت تک احکام شریعت کے پہنچانے والے ہیں، لہذا اگر یہ حکم شریعت ہوتا تو آپ اسے امت کے سامنے قول، فعل یا تقریر کے ذریعے ضرور بیان فرما دیتے، لیکن جب ان میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں تو پھر ہمیں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ اتباع سنت ہی بہتر ہے، خواہ وہ عمل کم ہی کیوں نہ ہوں اس بدعت سے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ رمضان اور غیر رمضان میں بار بار عمرہ کرنا سوال: رمضان اور غیر رمضان میں حرم سے اس نیت سے نکل کر حل میں جانے کا کیا حکم ہے تاکہ ایک اور عمرہ کر لیا جائے؟ جواب: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرمایا ہے کہ بالاتفاق سلف، عمروں کی کثرت اور تکرار مکروہ ہے۔ اس قول کو خواہ تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن یہ بات درست ہے کہ جو شخص اپنے وطن سے مکہ مکرمہ میں عمرہ کے لیے آیا ہے اس کے رمضان اور غیر رمضان میں حرم سے نکل کر حل میں جانا تاکہ وہ دوسرا اور تیسرا عمرہ بھی کر سکے، یہ یقینا ان امور بدعت میں سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں معروف نہ تھے۔ عہد نبوی سے اس کی صرف ایک ہی مثال ملتی ہے اور اس کا تعلق بھی ایک خاص مسئلہ سے ہے اور وہ یہ کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھا تھا کہ آپ کے ایام شروع ہو گئے،[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ رو رہی ہیں، رونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا، اس پر آپ نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ ’’یہ تو وہ چیزہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے لکھ رکھا ہے، پھر آپ نے حکم دیا کہ حج کا احرام باندھ لیں، چنانچہ آپ نے حج کا احرام باندھ لیا اور اس طرح ان کا حج قران ہو گیا اور جب وہ حج سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ حج کے علاوہ ایک مستقل عمرہ بھی کرنا چاہتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کواس کی اجازت دے دی اور آپ نے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ تنعیم تک جائیں تاکہ وہاں سے احرام باندھ آئیں اور اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ عمرہ کیا۔ اگر یہ مطلقا مشروع ہوتا تو آپ اس کی طرف تمام صحابہ کرام کی رہنمائی فرماتے اور بالخصوص عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو تو اس کی ضرور ترغیب دیتے جو اپنی بہن کے ہمراہ تھے کہ وہ بھی ایک اور عمرہ کا اجروثواب حاصل کریں اور پھر ہم سب یہ
Flag Counter