Maktaba Wahhabi

90 - 531
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ دَخَلَ حُجْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ، وَحَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ جَامِعَ امْرَأَتَهُ بِالطَّرِيقِ لَفَعَلْتُمُوهُ) (صحيح البخاري‘ احاديث الانبياء‘ باب ما ذكر عن بني اسرائيل‘ ح: 3456 والمستدرك للحاكم: 4/ 455 واللفظ له) ’’ تم پہلے لوگوں کے طریقوں کو بالکل اسی طرح مکمل طور پر اختیار کر لو گے جس طرح بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی شخص سانڈے کی بل میں داخل ہوا تو تم بھی داخل ہو گے اور اگر ان میں سے کسی نے راہ چلتے اپنی بیوی سے جماع کیا تو تم بھی ایسا کرو گے۔‘‘ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ چہلم اور ماتمی جلسہ سوال: رسم چہلم منانے کی اصل کیا ہے؟ کیا ماتمی جلسہ کرنے کی کوئی شرعی دلیل ہے؟ جواب: رسم چہلم منانا فرعونیوں کی رسم ہے۔ اسلام سے قبل فرعون یہ رسم منایا کرتے تھے اور پھر ان سے دیگر قوموں میں یہ رسم پھیل کر عام ہو گئی، لہذا یہ ایک بہت بری بدعت ہے، اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697) ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کر لی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ ثانیا: موجودہ طریقے کے مطابق جمع ہو کر ماتمی جلسہ کرنا اور فوت ہونے والے شخص کی تعریف میں بے حد مبالغہ سے کام لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَرَاثِي) (سنن ابن ماجه‘ الجنائز‘ باب ما جاء في البكاء علي الميت‘ ح: 1592 ومسند احمد: 4/356) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا ہے۔‘‘ چونکہ میت کے اوصاف بیان کرنے میں اکثر فخر و غرور کا اظہار کیا جاتا ہے اور غم و حزن کی تجدید ہوتی ہے اور اگر میت کے تذکرہ کے وقت یا اس کے جنازہ کے گزرنے کے وقت تعریف کی جائے یا اس کے تعارف کے لیے اس کے کارہائے نمایاں بیان کئے جائیں تو یہ جائز ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض صحابہ نے شہداء احد یا دیگر صحابہ کرام کے انتقال کے وقت ان کی تعریف کی تھی۔ اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے جس کی صحابہ کرام نے تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واجب ہو گئی‘‘ پھر لوگ ایک اور جنازہ لے کر گزرے تو صحابہ کرام نے اس کی برائی بیان کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہی فرمایا کہ’’واجب ہو گئی‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا:
Flag Counter