Maktaba Wahhabi

523 - 531
نکال لے اپنی اصلی رقم کو تو اپنے پاس محفوظ رکھے اور بینک سے حاصل ہونے والی اس زائد رقم کو فقراء و مساکین اور عام بہبود کے کاموں میں صرف کر دے۔ ثانیا: کسی ایسی جگہ کو تلاش کرے جہاں سودی کاروبار نہ ہوتا ہو خواہ وہ کوئی دوکان ہی کیوں نہ ہو اور اپنی رقم وہاں مضاربت پر دے دے اور مضاربت میں نفع کا حصہ مثلا ثلث وغیرہ یا جو بھی ہو وہ معلوم طے شدہ ہونا چاہیے یا پھر بغیر کسی فائدہ کے محض امانت کے طور پر اپنی رقم رکھوا دے۔ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ بینکوں کے منافع کے بارے میں حکم سوال: کیا یہ نفع جسے بینک اصلی سرمایہ پر ادا کرتے ہیں حلال ہے یا حرام؟ کیا ہم اس نفع کو لے لیں یا اسے چھوڑ دیں؟ جواب: یہ نفع عین سود ہے کیونکہ یہ مال کے عوض اسی کی جنس کا مال اس سے زیادہ لینا ہے اور پھر بینک اس مال پر حاصل ہونے والے نفع کی اصل مقدار کو نہیں بتاتے بلکہ اسے دوسرے کے مال کے ساتھ بھی ملا دیتے اور کبھی بہت زیادہ نفع حاصل کرتے اور کبھی خسارہ بھی اٹھاتے ہیں لہذا بینکوں کی طرف سے ادا کیا جانے والا یہ نفع ربا بھی ہے اور غرر بھی لیکن بعض علماء نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ اسے لے کر خود استعمال نہ کیا جائے بلکہ فقراء و مساکین اور فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کر دیا جائے اور اسے ان لوگوں کے پاس نہ رہنے دیا جائے جو اسے معصیت کے کاموں میں استعمال کریں۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ بینکوں کے منافع کا خیراتی سکیموں میں استعمال سوال: ہم ترکی کے باشندے ہیں اور سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور جیسا کہ آپ سے مخفی نہیں ہمارے ملک ترکی میں سیکولر ازم کو نظام حکومت کے طور پر اختیار کر لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں سودی نظام بری طرح پھیل چکا ہے حتیٰ کہ سود کی شرح پچاس فی صد سالانہ تک بھی پہنچ جاتی ہے، لیکن ہم ترکی میں اپنے اہل خانہ کو رقوم انہی بینکوں سے بھیجنے کے لیے مجبور ہیں جو کہ سود کا اصلی سرچشمہ ہیں۔ اسی طرح چوری ہو جانے، ضائع ہو جانے یا دیگر خطرات کی وجہ سے ہم بھی اپنی رقوم بینکوں میں رکھتے ہیں تو ان حالات کی وجہ سے ہم فتویٰ کے لیے دو اہم سوال آپ کی خدمت میں ارشاد کر رہے ہیں۔ جزاکم اللّٰه عنا خیر الجزاء (1)کیا یہ جائز ہے کہ سود انہی بینکوں میں چھوڑ دینے کے بجائے اسے فقراء اور خیراتی اداروں میں تقسیم کر دیا جائے؟ (2) اور اگر یہ جائز نہیں تو کیا چوری یا ضائع ہونے کے خدشہ کی وجہ سے حفاظت کے لیے بینکوں میں اپنی رقوم رکھنا جائز ہے جب کہ بینک ان رقوم کو جب تک یہ اس کے پاس رہیں گی، اپنے مقاصد میں استعمال کرتا رہے گا؟ جواب: بوقت ضرورت سودی بینکوں کے ذریعہ اپنی رقوم منتقل کرنے میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا ٱضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ) (الانعام 6/119)
Flag Counter