Maktaba Wahhabi

215 - 531
(اللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ) (سنن ابي داود‘ الوتر‘ باب في الاستغفار‘ ح: 1522) ’’ اے اللہ! تو اپنا ذکر کرنے اور اپنا شکر ادا کرنے پر اور اپنی بہترین عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ تراویح میں لمبی قراءت سوال: ایک مسجد کے امام نماز تراویح پڑھاتے ہوئے ہر رکعت میں قرآن مجید کا ایک پورا صفحہ یعنی قریبا پندرہ آیات تلاوت کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت لمبی قراءت ہے جب کہ بعض کی رائے اس کے برعکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ نماز تراویح میں سنت کیا ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حد منقول ہے جس سے طوالت و عدم طوالت کو معلوم کیا جا سکے؟ جواب: صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے[1] اور قراءت اور ارکان کو آپ بہت طول دیتے حتیٰ کہ ایک بار تو آپ نے ایک رکعت میں پانچ پاروں سے بھی زیادہ کی تلاوت فرمائی اور پھر نہایت ترتیل اور سکون کے ساتھ یہ تلاوت فرمائی اور یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے[2] کہ آپ نصف رات کے وقت یا تھوڑا سا نصف سے پہلے یا بعد میں اٹھتے اور طلوع فجر کے قریب تک نماز میں مصروف رہتے اور اس طرح قریبا پانچ گھنٹوں میں کل تیرہ رکعات ادا فرماتے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی قراءت اور ارکان بہت طویل ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو نماز تراویح با جماعت ادا کرنے کا حکم دیا تو وہ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں سورت بقرہ کی تیس آیات کے قریب یعنی چار پانچ صفوں کے بقدر تلاوت کرتے تھے اور اس طرح آٹھ رکعتوں میں وہ سورہ بقرہ پڑھ لیا کرتے تھے اور اگر وہ بارہ رکعتوں میں سورہ بقرہ ختم کرتے تھے تو اس قراءت کو وہ تخفیف پر محمول کرتے تھے۔ تو یہ ہے نماز تراویح کے بارے میں سنت ہے کہ اگر قراءت میں تخفیف ہو تو رکعات کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے حتیٰ کہ بعض ائمہ کے بقول اکتالیس تک رکعات پڑھی جا سکتی ہیں اور اگر کوئی شخص گیارہ یا تیرہ رکعات پر اکتفاء کرے تو قراءت اور ارکان کی طوالت میں اضافہ کر دے۔ نماز تراویح کی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ مطلوب و مقصود یہ ہے کہ اسے نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کیا جائے اور کم از کم ایک گھنٹہ تو اس نماز پر ضرور صرف کیا جائے۔ جو شخص اس قدر قیام کو طویل سمجھتا ہے تو خلاف منقول ہونے کی وجہ سے اس کی یہ بات ناقابل التفات ہے۔
Flag Counter