Maktaba Wahhabi

223 - 531
والدین کی طرف سے صدقہ سوال: بعض لوگ رمضان میں جانور وغیرہ ذبح کر کے دعوتوں کا اہتمام کرتے اور انہیں اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کا نام دیتے ہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب: فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن صدقہ کے بجائے دعا کرنا افضل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں ہماری اسی طرف رہنمائی فرمائی ہے: (إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ بَعْدَهُ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631) ’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتا ہے (1)صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور (3) وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘ تو اس حدیث میں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ نیک اولاد جو اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کرتی ہو یا نماز پڑھتی ہو۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنی کسی میت کی طرف سے صدقہ دے تو یہ بھی صحیح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اسے جائز قرار دیا تھا۔[1] لیکن بعض لوگ رمضان کی راتوں میں جانور ذبح کر کے بہت سی ایسی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں سرمایہ دار ہی شرکت کرتے ہیں تو یہ مشروع نہیں ہے اور نہ سلف صالح سے اس طرح ثابت ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ تو درحقیقت محض کھانے پینے اور مل بیٹھنے کے بہانے ہیں۔ بعض لوگوں کا جو یہ تصور ہے کہ تقرب الہٰی کے لیے ضروری ہے کہ جانور خود ذبح کیا جائے اور وہ بازار سے گوشت خرید کر پکانے کی نسبت خود (اپنے ہاتھ سے) ذبح کرنے کو افضل قرار دیتے ہیں تو یہ خلاف شرع ہے کیونکہ تقرب الہٰی کے حصول کے لیے شریعت نے جن ذبیحوں کا حکم دیا ہے وہ صرف قربانی، ہدی اور عقیقہ ہیں، لہذا رمضان میں تقرب الہٰی کے حصول کی نیت سے جانور ذبح کرنا سنت نہیں ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنا سوال: زکوٰۃ جو ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے، کیا اسے رمضان میں ادا کرنا افضل ہے؟ جواب: دیگر اعمال صالحہ کی طرح زکوٰۃ بھی فاضل زمانہ میں ادال کرنا افضل ہے لیکن جب زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہو جائے تو رمضان تک مؤخر نہ کیا جائے مثلا اگر رجب میں سال پورا ہو جائے تو رمضان تک انتطار نہ کرے بلکہ اسے رجب ہی میں ادا کرے۔ اسی طرح اگر سال میں پورا ہو رہا ہو تو زکوٰۃ بھی محرم میں ادا کرے اور رمضان تک اسے مؤخر نہ کرے۔ ہاں البتہ اگر سال کی تکمیل رمضان ہی میں ہو رہی ہو تو پھر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔
Flag Counter