Maktaba Wahhabi

476 - 531
لیے انعامی سکیم کے ذریعہ مقامی اشیاء کی سیل بڑھانے کا ارادہ کیا ہے جس کی صورت یہ ہو گی کہ جب کوئی گاہک دو سو ریال کا سامان خریدے گا تو وہ لاٹری کا کارڈ نکالے گا اور وہ انعام حاصل کرے گا جو اس کارڈ پر لکھا ہو گا اور جب وہ چار سو ریال کا سامان خریدے گا تو وہ لاٹری کے دو کارڈ نکال کر دو انعام حاصل کر سکے گا۔ اس انعامی سکیم میں رکھے جانے والے انعامات بھی مختلف ہوں گے، ان میں سے کچھ تو قیمتی ہوں گے مگر ان کی تعداد کم ہو گی، کچھ درمیانی قیمت کے ہوں گے اور ان کی تعداد بھی درمیانی ہو گی اور ایسے انعام کی تعدادبہت زیادہ ہو گی جن کی قیمت خریدار کی قیمت خرید کے دس فیصد کے بقدر ہو گی یعنی ایک انعام کی قیمت بیس ریال یا اس سے زیادہ ہو گی یعنی ہر گاہک کوئی انعام تو ضرور حاصل کرے گا لیکن انعام وہ ہو گا جو لاٹری کے کارڈ پر لکھا ہو گا البتہ اس کی قیمت مختلف ہو گی یعنی وہ ٹیپ ریکارڈر یا ائیرکنڈیشنر یا ٹیلی وژن یا لائٹر یا عطر کی شیشی وغیرہ حاصل کر سکے گا اور یاد رہے اس انعامی سکیم کے دنوں میں بھی سامان فروخت کی قیمت وہی ہو گی جو عام دنوں میں ہوتی ہے یعنی قیمتوں میں کوئی کمی بیشی نہ ہو گی۔ یہ انعامی سکیم صرف پرچون نرخ پر ہو گی یعنی تھوک نرخ پر نہیں ہو گی، اسی طرح دکان کے ملازمین بھی لاٹری کارڈ نکالنے کے مستحق نہ ہوں گے، نیز انتظامیہ کے افراد بھی اس سکیم میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اب سوال یہ ہے کیا یہ سکیم جائز ہے کہ ہم اخبارات میں اس کا اعلان کر دیں اور نمائش کے دروازہ پر انعامی سکیم کا بورڈ لگا دیں یا یہ جائز نہیں ہے؟ امید ہے آپ اس امر کی طرف میری رہنمائی فرمائیں گے جس میں دین و دنیا کی مصلحت ہو؟ واللّٰه یحفظکم۔ افتاء کمیٹی نے اس کا حسب ذیل جواب دیا: ’’اگر امر واقع اسی طرح ہے جس طرح سوال میں ذکر کیا گیا ہے تو اس طرح انعامات کے نام سے خریداروں کو جو دیا جاتا ہے یہ حرام ہے کیونکہ اپنے سامان کو ترویج دینے اور گاہکوں کی تعداد بڑھا کر اپنے راس المال میں اضافہ کرنے کے لیے یہ سکیم ہے خواہ اس انعامی سکیم میں بھی مال عام قیمت ہی پر فروخت کیا جائے اور پھر اگر دوسرے تاجر یہ طریقہ اختیار نہ کریں تو اس میں ان کا نقصان بھی ہے یعنی یہ اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ کمائی کرنے کے لیے جوا کی ایک سکیم ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں عداوت اور بغض کی آگ بھی بھڑکتی ہے اور یہ لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کا بھی ایک طریقہ ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص کو تو دو سو ریال کا مال خریدنے پر ٹیپ ریکارڈر یا ائیر کنڈیشنر مل جائے اور دوسرے۔۔۔۔ کو اسی قیمت کے سامان خریدنے کے نتیجہ میں صرف لائٹر یا عطر کی شیشی ہی ملے جس کی قیمت صرف دس یا بیس ریال ہو، لہذا یہ ایک حرام طریقہ ہے۔ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ یہ کاروبار جوا ہے سوال: ہمارے شہر میں ایک ویلفیئر سوسائٹی ہے جس نے اپنے دفتر کے دروازے کے سامنے ایک گاڑی کھڑی کر رکھی ہے جو شخص عام ریٹ پر ایک سو یا اس سے زیادہ درہم کا سامان خریدے گا تو اسے مفت ایک ٹکٹ دی جائے گی جس پر نمبر لگے
Flag Counter