Maktaba Wahhabi

77 - 531
اس میں حکمت یہ ہے کہ عورتوں کے زیارت قبور میں کئی خرابیاں ہیں مثلا یہ کہ عورت کمزور ارادے مگر شدید جذبات کی حامل (بہت ہی شفیق) ہوتی ہے لہذا ہو سکتا ہے کہ وہ جب اپنے کسی قریبی عزیزمثلا ماں یا باپ کی قبر کی زیارت کرے تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور رونا دھونا، چیخنا پکارنا اور نوحہ کرنا شروع کر دے تو اس سے اس کے ایمان اور جان دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ اس میں ایک یہ حکمت بھی ہے کہ قبرستان عموما لوگوں سے خالی ہوتے ہیں، لہذا عورت کے تن تنہا قبرستان میں جانے میں یہ اندیشہ بھی ہے کہ یہ فاسق و فاجر لوگوں کے ہتھے چڑھ کر کسی ایسی حرکت کا شکار نہ ہو جائے جس کا انجام اچھا نہ ہو۔ اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عورت ارادے کی کمزوری اور جذبات کی تیزی کے باعث زیارت قبور کو اپنا معمول بنا لے گی جس کی وجہ سے یہ قبرستان آنے جانے ہی میں مصروف رہے گی اور دین و دنیا کی کئی مصلحتوں اور حکمتوں کو ضائع کر بیٹھے گی۔ اگر اس ممانعت میں اور کوئی حکمت نہ بھی ہو تو بس یہی کافی ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور یہی (لعنت) قبروں کی زیارت سے رکنے اور دور رہنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جس کام سے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی منع فرما دیں، تو اس میں ہمارے لیے کوئی خیر و بھلائی نہیں ہوتی۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ زیارت قبور سے متعلق ایک مسئلہ اور لوگوں کا قول ’’ اس کی آخری منزل‘‘ سوال: ہمارے شہر میں یہ رواج ہے کہ جب کسی مردے کو دفن کر دیا جاتا ہے تو پھر چالیس دن تک اس کے اہل خانہ اس کی قبر کی زیارت کے لیے نہیں جاتے اور پھر اس کے بعد جاتے ہیں اور ان کے نزدیک چالیس دن سے پہلے زیارت جائز نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟ جواب: اس سوال کے جواب سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو قبروں کی زیارت سے منع فرما دیا تھا اور پھر بعد میں مردوں کو اس کی اجازت عطا فرما دی اور اب صرف مردوں کے لیے زیارت قبور سنت ہے، لہذا جو شخص زیارت قبور کے لیے جائے، وہ اس لیے جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے تاکہ وہ ان مردوں کی حالت کو دیکھ کر عبرت حاصل کر سکے کہ کل تک تو یہ زمین پر چلتے پھرتے تھے اور اب اپنی قبروں میں اپنے اعمال کے رہین منت ہیں، اپنے اعمال کے سوا وہاں ان کا اور کوئی دوست اور ساتھی نہیں ہے۔ قبر انسان کا آخری ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد وہ یوم آخر آنے والا ہے کہ جس کے بعد اور کوئی دن نہیں ہو گا،قبروں میں باقی رہنا ہی زیارت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ أَلْهَىٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ‌ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْ‌تُمُ ٱلْمَقَابِرَ‌ ١﴾ (التكاثر 102/1-2) ’’(لوگو!) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘ بیان کیا گیا ہے کہ ایک اعرابی نے کسی کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کہ (حَتَّىٰ زُرْ‌تُمُ ٱلْمَقَابِرَ‌) تو وہ بے ساختہ پکار اٹھا کہ’’زائر مقیم نہیں ہوتا‘‘
Flag Counter