Maktaba Wahhabi

414 - 531
’’سو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔‘‘ جب کہ قربانی صحیح قول کے مطابق واجب نہیں ہے کیونکہ کوئی ایسی صحیح اور صریح نص موجود نہیں ہے، جس سے معلوم ہو کہ قربانی واجب ہے۔ ہدی اور قربانی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہدی منیٰ اور بقیہ حرم میں ذبح کرنا مشروع ہے جب کہ قربانی ہر جگہ ذبح کی جا سکتی ہے، باقی احکام دونوں کے ایک جیسے ہیں مثلا ذبح کرنے کے وقت، مطلوبہ شرائط، گوشت کھانے اور صدقہ کرنے وغیرہ کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ حدیث: (مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا) (سنن ابن ماجه‘ الاضاحي‘ باب الاضاحي واجبة ام لا؟‘ ح: 3123) ’’جس کے پاس استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ اس کے بارے میں حافظ (ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ) نے ’’بلوغ المرام" میں لکھا ہے کہ اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے جب کہ دیگر ائمہ نے کہا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے اور پھر یہ قربانی کے واجب ہونے کی صحیح دلیل بھی نہیں ہے۔ اگر اس کا مرفوع ہونا ثابت ہو بھی تو یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا) (صحيح البخاري‘ الاذان‘ باب ما جاء في الثوم الني‘ ...الخ‘ ح: 855) ’’جو لہسن یا پیاز کھائے، وہ ہماری مسجد سے دور رہے (قریب نہ آئے)۔‘‘ اہل علم کی رائے میں یہ حدیث لہسن اور پیاز کی حرمت کی موجب نہیں ہے بلکہ اس سے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ ان چیزوں کے استعمال کے بعد مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونا مکروہ ہے کیونکہ ان کی ناگوار بو سے مسلمانوں کو ایذاء پہنچتی ہے۔ واللہ ولی التوفیق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ قربانی کی نیت کرنے والے کے لیے بال کٹوانا سوال: عشرہ ذوالحجہ میں بال کٹوانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جب کہ انسان نے قربانی کی نیت کر رکھی ہو اور بال خواہ وہ بھول کر کٹوادے یا جان بوجھ کر اور عورت جب اس عشرہ میں حیض سے پاک ہو اور اس نے قربانی کی نیت کر رکھی ہوتو کیا وہ اپنے بالوں میں کنگھی کرے یا نہ کرے؟ امید ہے آپ رہنمائی فرمائیں گے۔ جزاکم اللّٰه عنا وعن المسلمین احسن الجزاء جواب: جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ ماہ ذوالحجہ کے آغاز سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کٹوائے کیونکہ اس حدیث صحیح میں اس کی ممانعت آئی ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’صحیح‘‘میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے [1]کہ جب حیض اور نفاس والی عورتیں عشرہ ذوالحجہ میں پاک ہو جائیں اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتی ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائیں، جیسا کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے دیگر مسلمان بھی اس موقع پر اپنے جسم کے بال اور ناخن نہیں کٹواتے لیکن انہیں غسل کے وقت بال کھولنے اور کنگھی کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جان بوجھ کر بال نہ کاٹیں، بال کھولنے اور کنگھی کرنے کے وقت اگر غیر ارادی طور پر کچھ بال گر جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
Flag Counter