Maktaba Wahhabi

279 - 531
تلبیہ نہ بھی کہے تو اس کا کفارہ نہیں کیونکہ تلبیہ واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ لہذا وہ طواف کرے، سعی کرے بال کتروائے اور عمرہ بنا دے کیونکہ اس کی نیت عمرہ ہی کی تھی اور اگر احرام کے وقت اس کی نیت حج کی تھی اور اب وقت کافی ہو تو پھر بھی افضل یہ ہے کہ حج کو فسخ کر کے اسے عمرہ بنا دے۔ یعنی طواف و سعی کرے اور بال کتروا کر حلال ہو جائے۔ بحمداللہ اس صورت میں اس کا حکم حج تمتع کرنے والوں کا ہو گا۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ رمضان میں عمرہ اور اسی سال حج۔۔۔ سوال: فضیلۃ الشیخ! اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو رمضان المبارک میں عمرہ ادا کرے اور پھر اسی سال اس کا حج کا بھی ارادہ ہو تو کیا اس کے لیے فدیہ لازم ہے؟ نیز یہ فرمائیں کہ حج کی کون سی قسم افضل ہے؟ جواب: جس شخص نے رمضان میں عمرہ کیا اور پھر اسی سال حج مفرد کا احرام باندھ لیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں کیونکہ فدیہ تو اس شخص کے لیے لازم ہے جو حج کے وقت تک عمرہ سے فائدہ اٹھائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَ‌ةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ‌ مِنَ ٱلْهَدْىِ) (البقرۃ 2/196) ’’ تو جو (تم میں سے) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔‘‘ اور جو شخص رمضان میں عمرہ کرے اور پھر حج کے مہینوں میں احرام باندھ لے تو اسے متمتع (فائدہ اٹھانے والا) نہیں کہتے بلکہ متمتع تو وہ شخص ہوتا ہے جو حج کے مہینوں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ میں عمرہ کا احرام باندھے اور پھر اسی سال حج بھی کرے یا حج اور عمرہ کو ملا دے تو اسے متمتع کہتے ہیں اور اس پر فدیہ لازم ہے۔ حج کا ارادہ کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ حج کے ساتھ عمرہ کرے، یعنی طواف اور سعی کر کے بال کتروا دے اور حلال ہو جائے اور پھر اسی سال حج کا احرام باندھے۔ اور افضل یہ ہے کہ حج کا احرام آٹھ ذوالحج کو باندھے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حجۃ الوداع کے موقع پر اس کا حکم دیا تھا۔[1] حج تمتع کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ حج کے لیے بھی اسی طرح طواف اور سعی کرے جس طرح اس نے عمرہ کے لیے طواف و سعی کیا تھا، اکثر اہل علم کے نزدیک عمرہ کی سعی حج کی سعی سے کفایت نہیں کرے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کی دلالت سے یہی با ت درست ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ حج کے مہینوں سے پہلے عمرہ کرنے والا متمتع نہیں ہے سوال: جب کوئی مسلمان حج کےمہینوں سے پہلے حج کی نیت سے مکہ میں آ جائے اور عمرہ کر کے حج تک مکہ ہی میں رہے اور حج کرے تو کیا اس کا یہ حج تمتع ہو گا یا افراد؟ جواب: اس کا یہ حج مفرد ہو گا کیونکہ حج تمتع تو یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھا جائے اور اس سے فراغت
Flag Counter