Maktaba Wahhabi

364 - 531
کرے تو یہ افضل ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ بغیر عذر کے منیٰ میں رات بسر نہ کرنا سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو منیٰ میں تین یا دونوں دنوں کی راتیں بسر نہ کرے تو کیا اس پر ہر رات بسر کرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہو گا یا تینوں راتوں کے لیے ایک دم ہی کافی ہو گا، امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟ جواب: جو شخص کسی عذر کے بغیر ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں بسر نہیں کرتا تو وہ افعال و ارکان حج میں سے ایک ایسے فعل کا تارک ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے مشروع قرار دیا ہے اور اس کے ترک کی آپ نے صرف عذر والوں مثلا چرواہوں اور سقوں وغیرہ ہی کو رخصت دی ہے اور رخصت عزیمت کے بالمقابل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایام تشریق کی راتوں کو منیٰ میں بسر کرنا، اہل علم کے صحیح قول کے مطابق واجبات حج میں شمار کیا گیا ہے، لہذا جو شخص اسے شرعی عذر کے بغیر ترک کر دے تو اس پر دم لازم ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت ہے کہ ’’جو شخص حج کے کسی عمل کو ترک کر دے یا بھول جائے تو وہ خون بہائے۔‘‘[1] ان تمام راتوں کے لیے ایک دم ہی کافی ہو گا۔ واللہ اعلم۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ بیماری کی وجہ سے منیٰ میں رات بسر نہ کرنا سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو گیارہ تاریخ کی رات منیٰ میں اس لیے بسر نہ کر سکے کہ وہ بیمار تھا، ہاں البتہ دن کو زوال کے بعد اس نے رمی جمار کی اور پھر بارہ تاریخ کو بھی اس نے زوال کے بعد رمی کی تو کیا بیماری کی وجہ سے گیارہ تاریخ کی رات منیٰ میں نہ گزارنے کی وجہ سے اس پر دم لازم ہے، جیسا کہ اس نے بارہ تاریخ کی رات منیٰ میں گزاری تھی اور پھر بارہ تاریخ کو زوال کے بعد رمی جمار کر کے اس نے منیٰ سے مکہ مکرمہ کی طرف کوچ کیا، امید ہے اس مسئلہ کی دلیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں گے؟ جواب: اگر بیماری کی وجہ سے ایک رات کا قیام ترک کیا ہے تو کوئی فدیہ لازم نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ) (التغابن 64/16) ’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سقوں اور چرواہوں کو ترک قیام کی رخصت عطا فرما دی تھی[2] تو اس سے معلوم ہوا کہ معذور کے لیے ترک قیام کی رخصت ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter