یہ کہیں گے کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ طہارت واجب میں استعمال کیا گیا پانی طاہر تو ہوتا ہے مطہر نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور پانی کو اس کے اصلی وصف یعنی طہوریت سے کسی دلیل ہی سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں تو معلوم ہوا کہ طہارت واجب میں مستعمل پانی طاہر بھی ہے اور مطہر بھی اور جب مقیس علیہ کے حکم کی نفی ہو گئی تو اس کی فرع کی خود بخود نفی ہو گئی۔ اسی طرح دوسری علت یعنی مستعمل کنکری کو آزاد کردہ غلام پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کہ غلام کو جب آزاد کر دیا جائے تو وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہوتا ہے، لہذا اب دوبارہ اس کی آزادی کے کوئی معنی نہیں لیکن پتھر رمی کے بعد بھی پتھر ہی رہتا ہے اور اس سے وہ صفت زائل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ رمی کے قابل تھا اور پھر ایک مرتبہ آزاد کردہ غلام اگر کسی شرعی سبب کے باعث دوبارہ غلام بن جائے تو اسے دوبارہ آزاد کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح تیسری علت جو یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ تمام حاجیوں کے لیے ایک ہی پتھر کافی ہو تو ہم عرض کریں گے کہ اگر ایسا ممکن ہو تو یہ جائز ہے لیکن ایسا ممکن ہی نہیں اور پھر کنکریوں کی کثرت اور فراوانی کی وجہ سے کون ایسا کر سکتا ہے، لہذا آپ کے ہاتھ سے جب ایک یا ایک سے زیادہ کنکریاں جمرات کے پاس گرجائیں تو ان کے بجائے اپنے پاس سے کنکریاں پکڑ لو، خواہ ظن غالب کے مطابق وہ رمی میں استعمال ہو چکی ہوں یا استعمال نہ ہوئی ہوں۔
۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
رمی جمرات کی ابتداء، کیفیت اور کنکریوں کی تعداد
سوال: حاجی رمی جمرات کی کب ابتداء کرے، رمی کی کیفیت کیا ہو، کنکریوں کی تعداد کتنی ہو نیز کس جمرہ سے شروع کرے اور کس پر ختم؟
جواب: پہلے جمرہ کو عید کے دن رمی کی جائے۔ یہ وہ جمرہ ہے جو مکہ سے ملا ہوا ہے اور اسے جمرہ عقبہ کہا جاتا ہے۔ اسے عید کے دن رمی کی جائے اور اگر قربانی کی رات نصف اخیر کے وقت رمی کر لی جائے تو یہ بھی صحیح ہے لیکن افضل یہ ہے کہ ضحیٰ کے وقت رمی کی جائے اور غروب آفتاب تک رمی کی جا سکتی ہے اور اگر دن کو رمی نہ کی جا سکے تو عید کے دن کے بعد والی رات کو غروب آفتاب کے بعد بھی رمی کی جا سکتی ہے۔ ایک ایک کنکری پھینکی جائے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر پڑھا جائے۔ ایام تشریق میں زوال آفتاب کے بعد رمی کی جائے۔ پہلے اس پہلے جمرہ کو رمی کی جائے جو مسجد خیف کے ساتھ ہے۔ اسے سات کنکریاں ماری جائیں اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر پڑھا جائے۔ پھر جمرہ وسطیٰ کو سات کنکریاں ماری جائیں اور پھر آخری جمرہ کو سات کنکریاں ماری جائیں۔ اور جسے (جلدی) نہ ہو، وہ گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو اسی طرح کنکریاں مارے۔ سنت یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے جمرہ کو رمی کرنے کے بعد رک جائے، پہلے جمرہ کو رمی کرنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر کھڑا ہو جائے، جمرہ کو اپنی بائیں طرف کر لے اور اللہ تعالیٰ سے خوب لمبی دعا کرے، جسے جلدی نہ ہو وہ گیارہ ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو اسی طرح کرے۔ جمرہ اخیرہ جو مکہ مکرمہ سے ملا ہوا ہے، اسے رمی تو کر لے لیکن اس کے پاس کھڑا نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رمی تو کی تھی لیکن آپ اس کے پاس کھڑے نہیں ہوئے تھے ۔[1]
۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
|