Maktaba Wahhabi

126 - 531
جواب: زکوٰۃ تو سونے ہی میں ہے، خواہ وہ پہننے کے لیے ہو۔ قیمتی پتھروں، موتیوں اور الماس وغیرہ میں زکوٰۃ نہیں ہے اور ہاروں وغیرہ میں اگر یہ چیزیں لگی ہوں تو پھر عورت یا اس کے شوہر یا وارثوں کو چاہیے کہ وہ بغور جائزہ لے کر خالص سونے کے وزن کا تعین کریں یا ماہر لوگوں سے پوچھ لیں اور ظن غالب کے مطابق اگر زیور کا وزن نصاب کے مطابق ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے۔ سعودی اور افرنگی گنی کے حساب سے یہ ساڑھے گیارہ گنی اور گرام کے حساب سے یہ بانوے گرام کے برابر ہے۔ زکوٰۃ ہر سال ادا کی جائے۔ شرح زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے۔ یعنی ہزار میں سے پچیس۔ اہل علم کے اقوال میں سے صحیح ترین قول یہی ہے۔ اگر زیورات تجارت کے لیے ہوں تو ان کی موتیوں اور الماس سمیت ان کے حسب قیمت زکوٰۃ ادا کی جائے گی جس طرح کہ دیگر سامان تجارت کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ وقف شدہ اور اس جیسے مال کی زکوٰۃ مال وقف میں زکوٰۃ نہیں ہے سوال: ہمارے ہاں ’’جامعہ ملک سعود‘‘میں طلبہ کے لیے ایک کیش بکس ہے جو مالی تعاون کے لیے رکھا گیا ہے، اس میں کیش جامعہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے اور تھوڑا سا حصہ طلباء کے وظائف میں سے بالاقساط لیا جاتا ہے اور اس فنڈ سے ضرورت مند طلبہ کی اعانت کی جاتی ہے۔کیا اس بکس میں موجود رقوم پر زکوٰۃ ہے؟ جواب: مذکورہ بکس اور اس طرح کے دیگر اموال میں زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ وہ ایسا مال ہے جس کا کوئی مالک نہیں ہے بلکہ وہ تو نیکی کے کاموں کے لیے وقف ہے اور یہ بھی ایسے تمام اموال ہی کی طرح ہے جنہیں نیکی کے کاموں کے لیے وقف کیا گیا ہوتا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ مال وقف میں زکوٰۃ کا حکم سوال: میرے پاس کچھ مال ہے جو اہل خیر نے مسجد بنانے کے لیے دیا ہے اور یہ میرے پاس ایک سال سے زیادہ عرصہ سے ہے تو کیا اس مال کی مجھ پر زکوٰۃ لازم ہے یا نہیں؟ جواب: اس مال کی مطلقا زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ اس مال کے مالکوں نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس مال کو اس کے مصرف پر جلد خرچ کر دیں۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter