Maktaba Wahhabi

545 - 531
جواب: آپ کو چاہیے کہ اس کارکن کے حق کی اس کے وارث کی آمد تک حفاظت کریں اور یہ تحقیق کر کے کہ یہ واقعی اس کا وارث ہے، اس کے سپرد کر دیں۔ جب تک آپ کو یہ علم ہے کہ اس کا بھائی آئے گا خوایہ یہ مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو جائے۔ اگر آپ اس رقم کو تجارت میں لگا کر اس کی افزائش کا اہتمام کریں تو یہ اور بھی بہتر ہے اور اگر اپنے علاقے کی عدالت کے سربراہ کے پاس یہ رقم جمع کرا دیں تو یہ بھی درست ہے اور اگر جمع کراتے ہوئے ان سے رسید بھی لے لیں تو اس میں آپ کے لیے زیادہ احتیاط اور آسانی ہے۔ وصلي اللّٰه علي نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ مزدوری اور کرایہ داری کے چند مسائل نماز جیسے اعمال کے لیے معاہدۂ اجرت سوال: ایک آدمی فوت ہوا جو سخاوت اور حسن اخلاق کا تو مالک تھا لیکن وہ نہ نماز پڑھتا تھا اور نہ روزہ رکھتا تھا تو اس کی وفات کے بعد اس کے اہل خانہ نے ایک شخص کو مال دے دیا تاکہ وہ اس کی طرف سے فوت شدہ نمازیں پڑھے اور روزے رکھے تو کیا یہ شرعا صحیح ہے؟ اس صورت میں مال لینے کا کیا حکم ہے؟ جواب: یہ فوت ہونے والا شخص جو نماز اور روزہ ادا نہیں کرتا تھا، حالت کفر میں فوت ہوا ہے۔ والعیاذباللہ۔ کیونکہ اہل علم کے راجح قول کے مطابق جس کی نصوص کتاب و سنت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال سے بھی تائید ہوتی ہے، تارک نماز کافر ہے اور جو نماز کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے خواہ وہ نماز پڑھتا بھی ہو۔ نصوص ترک کے بارے میں وارد ہیں، انکار کے بارے میں نہیں، لہذا یہ ممکن نہیں کہ اس وصف کو ہم لغو قرار دیں، شریعت نے جس کا اعتبار کیا ہے، یا ہم انہیں انکار پر محمول کریں جیسا کہ بعض اہل علم نے کیا ہے اور تارک نماز کی تکفیر کے بارے میں جو نصوص وارد ہیں، ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ان سے مراد نماز کا منکر ہے لیکن اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ ہم اس وصف کو لغو قرار دے رہے ہیں جس پر شریعت نے حکم لگایا ہے اور اس وصف کا اعتبار کر رہے ہیں جس کا شریعت نے ذکر ہی نہیں کیا، نیز اس میں تناقض بھی ہے کیونکہ نماز کا منکر تو کافر ہے خواہ وہ نماز پڑھتا بھی ہو، خواہ وہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز پڑھتا ہو اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نماز پنجگانہ فرض نہیں ہے اور وہ اسے محض نفل عبادت کے طور پر ادا کر رہا ہے تو وہ کافر ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ تارک نماز کے کفر کے بارے میں وارد نصوص کو انکار نماز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اس آدمی کے اہل خانہ نے اس کی نمازوں اور روزوں کے لیے جو مال خرچ کیا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اعمال قربت میں سے کسی عمل کے لیے عقد اجرت صحیح نہیں ہے۔ لہذا یہ صحیح نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ تم میری طرف سے نماز روزہ ادا کر دو میں تمہیں اس کی اجرت دے دوں گا ہاں البتہ حج کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن یہ اس کی تفصیل کا وقت نہیں ہے، لہذا اس شخص نے جو یہ مال لیا ہے تو یہ ناحق لیا ہے، اس کے لیے واجب ہے کہ یہ مال انہیں واپس لوٹا دے۔ اس نے جو نمازیں پڑھی ہیں، ان سے اس میت کو کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ وہ غیر مسلم ہے اور غیر
Flag Counter