Maktaba Wahhabi

487 - 531
بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے: (مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم من غشنا فليس منا‘ ح: 101) ’’جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: (البَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا،فَإِنْ صَدَّقَا وَبَيَّنَا، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَّبَا، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب اذا بين البيعان...الخ‘ ح: 2079 وصحيح مسلم‘ البيوع‘ باب الصدق في البيع والبيعان‘ ح: 1532) ’’بیع کرنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ الگ نہ ہوں۔ اگر وہ سچ بولیں اور ہر چیز واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہو گی اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت ختم ہو جائے گی۔‘‘ جو شخص دھوکا دے اور عیب والی چیز کو صحیح چیز کے بھاؤ بیچے اسے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرنی چاہیے، اپنے فعل پر نادم ہونا چاہیے اور جس کو دھوکا دیا ہے اسے اس کا حق واپس کر کے صلح کر لینی چاہیے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ جاننے بوجھنے کے باوجود خراب گاڑی فروخت کر دی سوال: میں نے ایک گاڑی خریدی تو اس میں معمولی سا نقص پایا جس کی وجہ سے میں نے اسے بیچ دیا لیکن خریدار کو اس کے بارے میں نہ بتایا تو کیا یہ بھی دھوکا یا نہیں؟ جواب: ہاں یہ بھی دھوکا ہے اور دھوکا حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم من غشنا فليس منا‘ ح: 101) ’’جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ لہذا اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور جلدی سے مشتری کو بھی یہ بتا دیں کہ گاڑی میں یہ نقص ہے تاکہ آپ بری الذمہ ہو جائیں۔ اگر وہ اپنے حق سے دستبردار ہو جائے تو الحمدللہ! ورنہ اس خرابی کے عوض اسے معاوضہ دینے پر اتفاق کر لیں یا اس کی رقم واپس کر کے اس سے گاڑی لے لیں۔ اگر صلح نہ ہو سکے تو یہ معاملہ اپنے علاقہ کے قاضی کی عدالت میں پیش کر کے فیصلہ کرا لیں۔ اور اگر خریدار کے بارے میں علم نہ ہو تو خرابی کی قیمت کے بقدر اس کی طرف سے صدقہ کر دیں۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ کیا یہ ربا ہے؟ سوال: ایک آدمی نے دوسرے کے چاول کی بوریاں ایک مدت کے ادھار پر بیچیں تو مشتری نے انہیں بائع سے لے کر
Flag Counter