Maktaba Wahhabi

202 - 531
زچگی کا خون ہے۔ جب چالیس دن پورے ہو جائیں تو اس کے لیے غسل کرنا واجب ہے خواہ وہ طہارت کی علامت نہ دیکھے، کیونکہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق نفاس کی زیادہ سے زیادہ حد چالیس دن ہے۔ اگر چالیس دنوں کے بعد بھی خون جاری رہے تو اسے ہر نماز کے وقت میں وضو کر کے اسے ادا کرنا ہو گا حتیٰ کہ خون منقطع ہو جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ کو حکم دیا تھا۔[1] چالیس دنوں کے بعد خاوند اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا ہے خواہ اس نے ابھی تک طہارت کی علامت نہ بھی دیکھی ہو کیونکہ چالیس دنوں کے بعد زچگی کا خون نہیں بلکہ یہ ایک فاسد خون ہے جو نماز روزہ اور جنسی تعلق سے مانع نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر نفاس کے چالیس دنوں کے بعد کسی عورت کے حیض کے ایام شروع ہو جائیں تو پھر وہ نماز روزہ ترک کر دے گی، (جنسی تعلق بھی جائز نہ ہو گا) کیونکہ یہ حیض کا خون ہو گا۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ غسل حیض کو طلوع فجر تک مؤخر کرنا سوال: کیا غسل جنابت میں طلوع فجر تک تاخیر کرنا جائز ہے؟ کیا خواتین کے لیے حیض یا نفاس کا غسل کو طلوع فجر تک مؤخر کرنا جائز ہے؟ جواب: جب عورت فجر سے پہلے پاک ہو جائے تو اس کے لیے روزہ رکھنا لازم ہے۔ طلوع فجر کے بعد تک غسل مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن تاخیر اس قدر نہیں ہونی چاہیے کہ سورج طلوع ہو جائے بلکہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کرنا اور نماز پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح جنبی مرد اور عورت کو بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے غسل کر کے نماز ادا کرنا چاہیے خصوصا مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد غسل کرے تاکہ نماز فجر با جماعت ادا کر سکے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت اور روزہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین جب رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں سوال: حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین جب رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟ اور اگر وہ چاولوں کی صورت میں فدیہ دینا چاہیں تو کتنا فدیہ دیں؟ جواب: حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ کسی عذر کے بغیر ایام رمضان کے روزے چھوڑیں اور اگر کسی عذر کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزے چھوڑنا پڑیں تو ان دنوں کی قضا لازم ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مریض کے بارے میں فرمایا ہے: (فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ۢ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ‌ ۚ) (البقرة 2/184)
Flag Counter