Maktaba Wahhabi

421 - 531
جب کوئی انسان اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے اور یہ نیت کرے کہ اس کا اجروثواب اس کے اور اس کے زندہ ومردہ اہل خانہ کے لیے ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، باقی رہی میت کے لیے خاص قربانی تو اس کی دو حالتیں ہیں: (1)میت نے اس کی وصیت کی ہو تو اس کی وصیت پر عمل کے پیش نظر اس کی طرف سے قربانی کی جائے گی کہ وصیت کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعْدَ مَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثْمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓ ۚ إِنَّ ٱللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٨١﴾فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ ٱللّٰهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٨٢﴾ (البقرة 2/181-182) ’’ جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس کے (بدلنے) کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں اور بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔ اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔‘‘ یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی وصیت پر عمل کیا جائے گا بشرطیکہ اس میں گناہ یا کسی کی حلق تلفی نہ ہو۔ (2)میت نے وصیت تو نہ کی ہو بلکہ از خود اس کی طرف سے قربانی کی جائے، اس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ یہ مشروع ہے یا غیر مشروع! بعض نے اسے زندہ کی طرف سے قربانی اور مردہ کی طرف سے صدقہ کی طرح مشروع قرار دیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ غیر مشروع ہے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ آپ کی حیات میں آپ کے اعزہ و اقارب اور ازواج مطہرات میں سے کئی ایک کا انتقال ہوا لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان میں سے کسی کی طرف سے بطور خاص قربانی کی ہو۔ اسی طرح آپ کی حیات پاک ہی میں آپ کی تین صاجزادیوں اور تین صاجزادوں کا انتقال ہوا لیکن یہ قطعا ثابت نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی کی طرف سے بطور خاص قربانی کی ہو۔ آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہوئے اور آپ نے ان کی طرف سے قربانی نہیں کی اور اسی طرح آپ کی حیات ہی میں آپ کی دوبیویوں حضرت خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہن کا انتقال ہوا اور آپ نے ان کی طرف سے بھی کبھی کوئی قربانی نہیں کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر یہ امر مشروع ہوتا تو آپ اسے ضرور سر انجام دیتے، لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کا ارادہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ہے تو اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کیجئے اور نیت یہ کیجئے کہ یہ آپ کی اور آپ کے زندہ اور مردہ قریبی رشتہ داروں کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم بے حد وسیع ہے۔ (امید ہے وہ ان سب کو اپنے فضل و کرم سے سرفراز فرما دے گا)۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ بوقت ضرورت عورت کے لیے بھی قربانی کرنا جائز ہے سوال: جب وقت ذبح آ جائے اور گھر میں کوئی مرد موجود نہ ہو تو کیا عورت کے لیے قربانی کرنا جائز ہے؟ جواب: ہاں عورت کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ بوقت ضرورت قربانی یا دوسرے جانور کو ذبح کر سکتی ہے جبکہ ذبح کرنے کی دیگر شرائط موجود ہوں۔
Flag Counter