Maktaba Wahhabi

442 - 531
مسئلہ تورق سوال: ایک آدمی نے دوسرے سے مبلغ دس ہزار ریال اس شرط پر قرض لیے کہ وہ معاہدہ کے ایک سال بعد اسے دو ہزار ریال زیادہ ادا کرے گا اور اس معاملہ کی تفصیل حسب ذیل ہے: صاحب قرض نے ایک سامان مبلغ دس ہزار ریال میں خریدا اور مقروض کو وہ بارہ ہزار ریال میں اس شرط پر بیچ دیا کہ وہ معاہدہ کے ایک سال بعد اسے سارا قرض ادا کرے گا، لیکن دوسرے شخص نے اس سامان کو اسی جگہ پر نو ہزار آٹھ سو ریال میں فروخت کر دیا۔۔۔ یاد رہے قرض دہندہ نے پہلے سارا سامان اپنے قبضہ میں لیا تھا اور پھر اس نے مقروض کے ساتھ مذکورہ رقم ادا کرنے پر اتفاق کیا تھا ،تو کیا قرض دہندہ کا مقروض کے ساتھ یہ معاملہ صحیح ہے؟ کیا مقروض کا جگہ کے مالک کے ساتھ یہ معاملہ صحیح ہے؟ کیا یہ مسئلہ تورق ہے یا یہ سود ہی کا ایک حیلہ ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سود کے شر سے بچائے، ہمیں اس مسئلہ میں فتویٰ دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب: یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں تورق کے نام سے موسوم ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کسی دوسرے کو اپنا وہ سامان جس کا وہ مالک ہے اور جسے اس نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، معلوم قیمت کے ساتھ معلوم مدت کے ادھار پر بیچے اور پھر مشتری اسے اپنے قبضہ میں لینے کے بعد اس میں تصرف کرے۔ اکثر و بیشتر حالات میں اس طرح کا معاملہ نقدی کی ضرورت کی وجہ سے کیا جاتا ہے اور علماء کے صحیح قول کے مطابق اس طرح کی یہ بیع جائز ہے اور یہ ارشاد باری تعالیٰ:(وَأَحَلَّ ٱللّٰهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا۟) (البقرة 2/275) ’’اور سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔‘‘ اور فرمان باری تعالیٰ: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ ۚ) (البقرة 2/282) ’’اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘ میں داخل ہے اور قرض دہندہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے سامان کو بیچے جو تاجروں کے پاس ہو اور جسے اس نے خریدا اور اپنے قبضہ میں نہ لیا ہو بلکہ یہ باطل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (لا يحل سلف و بيع‘ وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الرجل بيع‘ ماليس عنده‘ ح: 3504) ’’ سلف اور بیع حلال نہیں ہے اور نہ اس چیز کی بیع حلال ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔‘‘ اسی طرح آپ نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ) (مسند احمد: 3/402 وسنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الرجل بيع ما ليس عنده‘ ح: 3503) ’’اس سامان کو نہ بیچو جو تمہارے پاس موجود ہی نہ ہو۔‘‘ اس مسئلہ یعنی مسئلہ تورق، میں بیع جائز ہے بشرطیکہ مال بائع کے پاس موجود ہو اور اس کے قبضہ میں ہو اور پھر مشتری
Flag Counter