Maktaba Wahhabi

427 - 531
ہے، بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر ساتواں دن گزر جائے تو اس کی وفات کے بعد عقیقہ کرنا مسنون نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ساتویں دن کا تعین فرمایا ہے۔ حنابلہ اور فقہاء کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ کیا جائے خواہ ایک مہینہ یا ایک سال یا ولادت کے بعد اس سے بھی زیادہ مدت گزر چکی ہو کیونکہ احادیث کے عموم سے یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ بعثت کے بعد کیا تھا [1]اور زیادہ احتیاط بھی اسی میں ہے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ وقت سے پہلے گر جانے والے نا تمام بچے کا عقیقہ سوال: کیا وقت سے پہلے گر جانے والے درج ذیل نا تمام بچوں کا عقیقہ کرنا لازم ہے یا نہیں: (1)جو بچہ حمل کے تین دن کم چار ماہ بعد گر گیا۔ (2) جو بچہ حمل کے تین ماہ ستر دن بعد گر گیا۔ (3) جو بچہ حمل کے صرف دو ماہ بعد گر گیا۔ یہ تینوں جنین لڑکے تھے اور کیا یہ تینوں روز قیامت میرے بیٹے شمار ہوں گے، قیامت کے دن اٹھنے کے وقت ان کی عمر کیا ہو گی؟ جواب: وقت سے پہلے گرجانے والے نا تمام بچے کا عقیقہ سنت ہے، جب کہ اسقاط نفخ روح کے بعد ہو یعنی حمل کے چار ماہ بعد اسقاط ہو لہذا سوال میں مذکو ر ساقط ہونے والے بچوں کا عقیقہ نہیں ہے۔ قبروں سے اٹھائے جانے کے وقت ان کی عمر کیا ہو گی، اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ سوال بھی بے معنی ہے اور آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ بے معنی کاموں کو ترک کر دے۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ ان دونوں بچوں کا عقیقہ مستحب ہے سوال: میری بیوی نے دس سال پہلے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا، جب کہ حمل کو ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے لیکن وہ پیدائش کے بعد پہلے دن ہی فوت ہو گئے تھے، ان کا نام بھی رکھ دیا گیا تھا تو کیا ان کا عقیقہ جائز ہے؟ جواب: ان کا عقیقہ مستحب ہے، ان میں سے ہر ایک کی طرف سے دو دو ایسے بکرے ذبح کئے جائیں، جن کی قربانی جائز ہو کیونکہ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے مثلا ام کرز کعبیہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ) (سنن ابي داود‘ الضحايا‘ باب في العقيقة‘ ح: 2835‘ 2836 و جامع الترمذي‘ ح: 1516 وسنن النسائي‘ ح: 4222‘ 4223 وسنن ابن ماجه‘ ح: 3162 ومسند احمد: 6/422)
Flag Counter