Maktaba Wahhabi

524 - 531
’’جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ناچار ہو جاؤ۔‘‘ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر میں انہی بینکوں کے ذریعہ رقوم منتقل کرنا عام ضروریات میں سے ہے، اسی طرح سود کی شرط کے بغیر محض حفاظت کے لیے رقوم رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر کسی شرط یا معاہدہ کے بغیر بینک سود ادا کریں تو اسے لے کر خیراتی سکیموں اور فقراء و مقروض لوگوں میں تقسیم کر دینے میں کوئی حرج نہیں، اس سودی رقم میں سے اپنے پاس نہ رکھے اور نہ خود اس سے کوئی فائدہ اٹھائے، یہ کمائی اگرچہ ناجائز ہے لیکن اسے لے کر فقیروں میں تقسیم کر دینا چاہیے کیونکہ اسے بینک کے پاس چھوڑ دینے میں مسلمانوں کا نقصان ہے۔ لہذا اسے مسلمانوں کے مفاد میں صرف کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ اسے کفار ہی کے پاس رہنے دیا جائے تاکہ وہ اسے حرام کاموں میں استعمال کریں۔ اگر ان رقوم کو غیر سودی بینکوں یا دیگر مباح طریقوں سے منتقل کرنا ممکن ہو تو پھر سودی بینکوں کے ذریعہ انہیں منتقل کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر اسلامی بینکوں یا اسلامی تجارت میں ان رقوم کو لگانا ممکن ہو تو پھر انہیں سودی بینکوں میں رکھنا جائز نہیں کہ اس صورت میں سودی بینکوں کے استعمال کی ضرورت نہیں۔ واللہ ولی التوفیق۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ سودی رقوم کو خیراتی سکیموں میں استعمال کرنا سوال: ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس کے باشندے غیر مسلم ہیں، اللہ تعالیٰ نے الحمدللہ اس ملک میں ہمیں خوش حالی سے نوازا جس کی وجہ سے ہم امریکی بینکوں میں اپنی رقوم محفوظ رکھنے کے لیے مجبور ہیں، لیکن ہم ان بینکوں سے اپنی رقوم پر سود نہیں لیتے اور وہ لوگ اس پر بہت خوش ہیں اور ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کے ان اموال کو عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم ان رقوم سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں اورا نہیں مسلمان فقراء اور مساجد و مدارس پر کیوں نہ خر چ کریں؟ اگر ان رقوم کو لے کر فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین اور ان کے وارثوں میں تقسیم کر دیا جائے تو کیا اس کی وجہ سے مسلمان قابل ملامت ہو گا؟ جواب: سودی بینکوں میں اپنے اموال کو رکھنا جائز نہیں ہے، خواہ یہ بینک مسلمانوں کے ہوں یا غیر مسلموں کے کیونکہ اس میں گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے، خواہ یہ اموال سود کے بغیر ہی رکھے جائیں لیکن اگر کوئی شخص سود کے بغیر محض حفاظت کے لیے رکھنے پر مجبور ہو تو ان شاءاللہ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا ٱضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ) (الانعام 6/119) ’’اور جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں مگر اس میں کہ تم ان کے لیے ناچار ہو جاؤ۔‘‘ سود لینے کی شرط کے ساتھ اگر ان رقوم کو بینکوں میں رکھا جائے تو پھر گناہ زیادہ ہو گا کیونکہ سود کبیرہ گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب کریم میں بھی اور اپنے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بھی حرام قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اسے نیست و نابود کر کے رہے گا۔ اور جو شخص سودی لین دین سے باز نہ آئے وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتا ہے۔ مال
Flag Counter