Maktaba Wahhabi

286 - 531
رقم گم ہوجانے کی وجہ سے فدیہ (قربانی) کی استطاعت نہ تھی۔۔۔؟ سوال: جس شخص نے حج اور عمرے کا احرام باندھا تھا لیکن مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد اس کے اخراجات کی رقم گم ہو گئی اور فدیہ کی استطاعت نہ رہی تو اس نے تبدیلی کر کے حج مفرد کی نیت کر لی تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور اگر وہ کسی اور کی طرف سے حج کر رہا ہو جس نے حج تمتع کی شرط عائد کی تھی تو پھر وہ کیا کرے؟ جواب: ایسا کرنا درست نہیں ہے، خواہ اس کی رقم گم ہی کیوں نہ ہو گئی ہو کیونکہ فدیہ کی عدم استطاعت کی صورت میں وہ دس روزے رکھ سکتا ہے۔ الحمدللہ! تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات اپنے گھر واپس لوٹ کر، لہذا اسے حالت تمتع پر برقرار رہنا ہو گا اور شرط کو بھی پورا کرنا ہو گا، لہذا اسے چاہیے کہ عمرے کا احرام باندھے، طواف و سعی کرے اور بال کتروا کر حلال ہو جائے اور پھر حج کا احرام باندھے اور فدیہ دے۔ اگر فدیہ ادا کرنے سے عاجز و قاصر ہو تو اس طرح دس روزے رکھے کہ تین ایام حج میں عرفہ سے پہلے اور سات اپنے گھر واپس لوٹ کر۔ یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کے پیش نظر افضل یہ ہے کہ عرفہ کے دن آدمی نے روزہ نہ رکھا ہو کیونکہ آپ نے یوم عرفہ میں روزے کے بغیر وقوف فرمایا تھا۔[1] ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ حج افراد کو قران میں تبدیل کرنا سوال: بعض جدید کتب میں ہے کہ حج افراد کرنے والے کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حج افراد کو حج قران میں تبدیل کرے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد اور قران حج کرنے والوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسے عمرہ میں بدل دیں [2]اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی موجودگی میں کسی اور کا کلام حجت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حجۃ الوداع کے موقع پر حکم دیا تھا حالانکہ وہ تین قسموں میں بٹے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے حج قران، بعض نے حج افراد اور بعض نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کا احرام باندھا ہوا تھا کیونکہ آپ ہدی کا جانور ساتھ لائے تھے۔ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس احرام کو عمرہ کے لیے خاص کر دو لیکن جن کے ساتھ ہدی کا جانور ہو وہ اپنے احرام کو تبدیل نہ کریں۔‘‘ لہذا صحابہ کرام جب مکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے طواف و سعی کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ’’بال کتروا دیں اور حلال ہو جائیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں۔‘‘کیونکہ وہ تمتع نہیں کر سکتے۔ صحابہ کرام نے آپ کے اس ارشاد کو سنا تو اطاعت بجا لائے اور بال کتروا کر حلال ہو گئے۔ یہ سنت اس حاجی کے لیے ہے جو حج افراد یا قران کے لیے آئے اور اس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو، اسی میں آرام و راحت ہے اور کوئی تکلیف بھی نہیں اور پھر اس کے بعد جب ذوالحج کی آٹھ تاریخ آئے تو حج کا احرام باندھ لیا جائے۔ اس
Flag Counter