Maktaba Wahhabi

78 - 531
اس مناسبت سے میں اس طرف توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر جو اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ’’وہ فلاں شخص کو اس کے آخری ٹھکانے پر پہنچا آئے ہیں۔‘‘ان الفاظ پر ہم اگر غورکریں تو ان میں ایک طرح سے بعثت کا انکار ہے، کیونکہ اگر قبر ہی آخری ٹھکانہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد بعث و نشر نہ ہو گا اور یہ ایک بہت خطرناک بات ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانا تو ایمان و اسلام کی شرط ہے۔ لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ عامۃ الناس اس قسم کے کلمات کو سوچے سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں لیکن اس طرف توجہ دلانا ضروری تھی، کیونکہ اس طرح کے جملوں کو مطلقا استعمال کرنا حرام ہے اور اگر کسی شخص کا اعتقاد ہی یہی ہے کہ قبر آخری ٹھکانہ یا آخری آرام گاہ ہے تو پھر یہ کفر ہے، کیونکہ اس میں یوم آخرت کا انکار ہے۔ باقی رہا چالیس دن کے بعد زیارت قبور کا مسئلہ تو اس کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ انسان اپنے کسی عزیزکی تدفین کے دوسرے دن بعد بھی اس کی قبر کی زیارت کر سکتا ہے، لیکن جب کسی انسان کا کوئی قریبی عزیز وفات پائے گا تو پھر اسے دل کا روگ نہیں بنا لینا چاہیے اور اس کی قبر پر کثرت سے نہیں جانا چاہیے، کیونکہ اس سے غم تازہ رہے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو جائے گا اور زیادہ اہمیت اس بات کو دے گا کہ اپنا زیادہ وقت اپنے اس عزیز کی قبر کے پاس ہی گزارے، اس سے انسان کو وسوسوں ، برے افکار و خیالات اور خرافات میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ بدعات جنائز میت کے گھر میں اور جنازہ قبرستان لے جاتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھنا سوال: جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے تو اس گھر میں لاؤڈ سپیکر پر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی جاتی ہے، حتیٰ کہ جب گاڑی پر میت کو قبرستان میں لے جایا جاتا ہے تو اس وقت بھی گاڑی کے ساتھ سپیکر نصب ہوتا ہے، حتیٰ کہ اس طرح تلاوت سنتے ہی لوگ یہ بد شگونی لیتے ہیں کہ کوئی فوت ہو گیا ہے، اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ کسی انسان کی موت پر ہی تلاوت قرآن کی جاتی ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اس طرح کرنے والوں کے لیے آپ کے کیا پندونصائح ہیں؟ جواب: بلاشک و شبہ یہ عمل بدعت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا۔ تلاوت قرآن سے بلا شبہ غم و فکر ہلکا ہو جاتا ہے بشرطیکہ آدمی اسے خود خشوع و خضوع سے پڑھے، نہ کہ سپیکروں پر اس طرح پڑھا جائے، اسی طرح اہل میت کا تعزیت کے لیے آنے والوں کے استقبال کے لیے جمع ہونا بھی ان امور میں سے ہے جو عہد نبوی اور عہد صحابہ میں معروف نہ تھے، حتیٰ کہ بعض علماء نے اسے بھی بدعت قرار دیا ہے، لہذا ہماری رائے میں اہل میت کو لوگوں کی طرف سے تعزیتیں وصول کرنے کے لیے جمع نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں اپنے دروازے بند کر لینے چاہئیں، اگر بازار میں انہیں کوئی ملے یا جاننے والوں میں سے کوئی آئے کہ تعزیت وصول کرنے کا انہوں نے باقاعدہ کوئی اہتمام نہ کیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
Flag Counter