Maktaba Wahhabi

357 - 531
مزدلفہ میں رات بسر نہ کی جائے اور یہاں شب بسر نہ کرنے کی وجہ سے کیا حاجی پر کچھ لازم ہو گا؟ کیا مغرب و عشاء کی نمازیں اگر مزدلفہ میں ادا کی جائیں تو یہ وقوف اور شب باشی سے کفایت کر سکتی ہیں؟ یعنی مغرب و عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کرنے کے فورا بعد منیٰ روانگی اختیار کی جائے تو اس طرح یہ وقوف صحیح ہو گا؟ امید ہے دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے۔ جواب: مزدلفہ میں شب بسر کرنا حج کے واجبات میں سے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں شب بسر فرمائی، صبح کی نماز یہاں ادا فرمائی اور خوب روشنی ہونے تک یہاں مقیم رہے تھے اور آپ کا ارشاد ہے: (خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ) (صحيح مسلم ‘ الحج‘ باب استحباب رمي جمرة العقبة...الخ‘ ح: 1297 والسنن الكبري للبيهقي: 5/125واللفظ له) ’’مناسک حج کی تعلیم مجھ سے حاصل کرو۔‘‘ جو حاجی یہاں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کرنے کے بعد یہاں سے چل پڑے تو اس نے گویا اس واجب کو ادا ہی نہیں کیا اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور لوگوں کو بھی رات کے آخری حصہ میں یہاں سے روانہ ہونے کی اجازت دی ہے۔ جو شخص مزدلفہ میں رات بسر نہ کر سکے تو اس ترک واجب کے کفارہ کے طور پر اس پر دم لازم ہے۔ اہل علم کا یہ اختلاف مشہور و معلوم ہے کہ مزدلفہ میں شب بسر کرنا رکن ہے یا واجب یا سنت، تو ان میں سے راجح ترین قول یہ ہے کہ یہ واجب ہے، جو شخص اسے ترک کر دے اس پر دم لازم ہے اور اس کا حج صحیح ہے۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے ، ہاں البتہ صرف کمزور لوگوں کو یہ رخصت ہے کہ وہ آدھی رات کے بعد یہاں سے کوچ کر سکتے ہیں، طاقتور لوگ جن کے ساتھ کمزور نہ ہوں، ان کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ساری رات مزدلفہ میں گزاریں، نماز فجر ادا کریں، نماز فجر کے بعداللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کریں اور جب دن خوب روشن ہو جائے تو پھر طلوع آفتاب سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے یہاں سے روانہ ہوں۔ جو کمزور لوگ یہاں رات کے آخری حصہ میں پہنچیں تو ان کے لیے یہی کافی ہے کہ کچھ دیر یہاں رہیں اور پھر رخصت کو قبول کرتے ہوئے یہاں سے روانہ ہو جائیں۔ واللہ ولی التوفیق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ جو مغرب و عشاء کی نمازیں مزدلفہ سے پہلے ادا کر لے سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو مغرب و عشاء کی نمازیں قصر اور جمع تاخیر کی صورت میں مزدلفہ میں داخل ہونے سے پہلے ادا کرے اور یہ ہنگامی حالات کی وجہ سے ہو، مثلا یہ کہ مزدلفہ کے راستے میں اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہو اور وقت ختم ہونے کے خدشے کے پیش نظر وہ حدود مزدلفہ کے پاس یعنی مزدلفہ سے بہت ہی قریب مسافت پر دونوں نمازوں کو ادا کر لے اور پھر گاڑی ٹھیک ہونے تک سو جائے اور نماز فجر بھی حدود مزدلفہ کے قریب ہی ادا کر لے اور مزدلفہ میں اس کے لیے داخلہ اس وقت ممکن ہو جب سورج طلوع ہو چکا ہو تو کیا محدود مزدلفہ کے پاس ادا کی گئی مغرب و عشاء اور صبح کی یہ نمازیں صحیح ہوں گی؟ امید ہے عزت مآب دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟
Flag Counter