Maktaba Wahhabi

450 - 531
جواب: جب قرض دہندہ مقروض کے ذمہ مذکورہ صاع لازم قرار دے دے گا، تو یہ مسئلہ مسائل سلم میں شمار ہو گا اور سلم بیع کی ایک قسم ہے جو کہ حسب ذیل سات شرطوں کے ساتھ صحیح ہے: (1)یہ بیع ایسے سودے کے بارے میں ہو جس کی صفت کو ضبط کرنا ممکن ہو۔ (2) اس کی ایسی صفت بیان کرے جس سے قیمت کا اختلاف ظاہر ہو۔ (3) ناپ والی چیز میں اس کے ناپ ، تول والی چیز میں اس کے وزن اور پیمائش والی چیز کے بارے میں اس کی پیمائش کی مقدار کو بیان کرے۔ (4) جس چیز کی بیع سلم کی جا رہی ہو، اسے سپرد کرنے کے لیے مدت معلوم کی شرط عائد کرے۔ (5) جس چیز کے بارے میں بیع سلم کی جا رہی ہو وہ اپنی جگہ پر موجود ہو۔ (6) معاہدہ کی مجلس میں قیمت کو اپنے قبضہ میں لے لے۔ (7) بیع سلم ذمہ کے بارے میں کرے اور اگر سامان کے بارے میں کی تو صحیح نہیں ہو گی۔ قرآن مجید سے بیع سلم کے جواز کی دلیل حسب ذیل آیت کریمہ ہے: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ ۚ) (البقرة 2/282) ’’اے مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ قرض جو ایک مدت کے لیے سپرد کیا گیا ہو، اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا اور اس کی اجازت دی ہے اور پھر آپ نے تائید میں اسی مذکورہ بالا آیت کو پڑھا۔ اسے سعید (بن منصور) نے روایت کیا ہے۔ سنت سے اس کی دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو اہل مدینہ پھلوں کی ایک یا دو سال کی ادھار بیع کیا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا: (مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَليُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ) (صحيح البخاري‘ السلم‘ باب السلم في وزن معلوم‘ ح: 2240 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب السلم‘ ح: 1604) ’’جو شخص کسی چیز کی ادھار بیع کرے تو وہ معلوم ناپ، معلوم وزن اور معلوم مدت تک کے لیے بیع کرے۔‘‘ وصلي اللّٰه علي محمد وعلي آله وصحبه وسلم ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ بیع سلم کے کچھ اور مسائل سوال: جب کوئی شخص معلوم وزن کی کھجوروں کی بیع سلم کے سلسلہ میں کسی کو کچھ درہم دے تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وزن کے اندازے کے مطابق کھجوروں کے کچھ درخت لے لے جبکہ پھل کے پکنے کا آغاز ہو گیا ہو یا اس طرح اندازے سے درخت لینا جائز نہیں ہے؟
Flag Counter