Maktaba Wahhabi

324 - 531
جواب: طواف میں وکالت جائز نہیں،خواہ طواف زیارت ہو یا وداع، لہذا جو شخص طواف ترک کر دے، اس کا حج مکمل نہیں، ہاں البتہ طواف وداع ترک کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک جانور ذبح کر کے حرم کے مسکینوں کو کھلا دیا جائے، طواف وداع حائضہ و نفساء سے ساقط ہو جاتا ہے جبکہ انہوں نے طواف زیارت کیا ہو، اس نذر کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ طواف واجب کے لیے نذر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے تو خود شریعت نے واجب قرار دے رکھا ہے، ہاں البتہ اگر کوئی شخص ایسے طواف کی نذر مانتا ہے جو واجب نہیں ہے تو پھر اس نذر کو پورا کرنا لازم ہے کیونکہ وہ بھی نذر ماننے کی وجہ سے واجب ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ثُمَّ لْيَقْضُوا۟ تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا۟ نُذُورَ‌هُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا۟ بِٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾) (الحج 22/29) ’’پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہ ٔقدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ نائب پہلے اپنی طرف سے رمی کرے سوال: جب کوئی آدمی اپنی طرف سے رمی کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کی طرف سے بھی رمی میں نیابت کرے تو کیا اس کے لیے کوئی خاص ترتیب لازم ہے یا اسے اختیار ہے کہ جس کی طرف چاہے پہلے رمی کر لے؟ جواب: جب کوئی شخص اپنے ماں باپ کے مرض یا عجز کی وجہ سے رمی جمار میں ان کی نیابت کرے تو وہ پہلے اپنی طرف سے رمی کرے اور پھر اپنے ماں باپ کی طرف سے، اور والدین کی طرف سے رمی کرتے ہوئے اگر اپنی ماں کی طرف سے پہلے رمی کرے تو یہ افضل ہے کیوں کہ ماں کا حق زیادہ ہے، اور اگر پہلے باپ کی طرف سے رمی کرے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن پہلے اسے اپنی طرف سے خصوصا جب کہ حج فرض ہو، رمی کرنا چاہیے۔ نفل حج میں کوئی حرج نہیں خواہ پہلے اپنی رمی کرے یا اپنے ماں باپ کی طرف سے، ہاں البتہ افضل اور احسن یہ ہے کہ پہلے اپنی طرف سے، پھر ماں کی طرف سے اور پھر باپ کی طرف سے رمی کرے اور ایک ہی موقف میں اور عید کے دن رمی کرے، عید کے علاوہ باقی دنوں میں زوال کے بعد رمی کرے اور ہر جمرہ کو اکیس اکیس کنکریاں مارے۔ اگر بعض کی طرف سے رمی کو بعض پر مقدم کر دے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر باپ کی طرف سے رمی کو ماں کی طرف سے رمی پر یا ان دونوں کی طرف سے رمی کو اپنی طرف سے رمی پر مقدم کر دے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حج نفل ہو اور حج اگر فرض ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ پہلے اپنی طرف سے اور پھر اپنے ماں باپ کی طرف سے رمی کرے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ سعی میں وکالت سوال: جو شخص حج یا عمرہ کی سعی سے عاجز ہو تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا وہ سعی یا طواف میں کسی کو اپنا نائب مقرر کر سکتا ہے؟ اور اگر حج کا وقت ختم ہونے کے بعد وہ خود تندرست ہو جائے تو کیا کرے؟
Flag Counter