Maktaba Wahhabi

149 - 531
کچھ امور جو بعض لوگوں کو معلوم نہیں ہر مسلمان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے روزہ رکھے۔ ریاکاری، شہرت، لوگوں کی تقلید یا محض اس وجہ سے روزہ نہ رکھے کہ اس کے گھر والے یا شہر والے چونکہ آج کل روزے رکھ رہے ہیں لہذا وہ بھی روزہ رکھ رہا ہے بلکہ روزہ اس لیے رکھنا چاہیے کہ یہ ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے لہذا وہ اس فرض کے ادا کرنے اور اپنے رب سے اس کے اجروثواب کو پانے کی امید سے روزہ رکھے، اسی طرح قیام رمضان بھی کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ ایمان و حصول ثواب کی نیت سے کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: (مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) ( صحيح البخاري‘ فضل ليلة القدر‘ ح: 2014‘ وصلاة التراويح‘ باب فضل من قام رمضان‘ ح: 2009 وصحيح مسلم‘ صلاة المسافرين‘ باب الترغيب في قيام رمضان...الخ‘ ح: 759‘760) ’’جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے ۔اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں، جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے گا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے بھی سابقہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘ وہ امور جن کا حکم بعض لوگوں سے مخفی ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ روزے دار کو اگر کوئی زخم لگ جائے یا نکسیر پھوٹ جائے یا قے آ جائے یا غیر اختیاری طور پر حلق تک پانی وغیرہ چلا جائے تو ان سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، ہاں البتہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قے کرے تو اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب الصائم يستقي عامدا‘ ح: 2380 وجامع الترمذي‘ ح: 720 وسنن ابن ماجه‘ الصيام‘ باب ما جاء في الصائم يقي ء‘ ح: 1676 واللفظ له) ’’جسے خود بخود قے آ جائے اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضاء لازم ہے۔‘‘ بعض لوگوں سے اس مسئلہ کا حکم بھی مخفی ہے کہ بسا اوقات روزے دار کے غسل جنابت میں طلوع فجر تک تاخیر ہو جاتی ہے یا بعض عورتوں کے غسل حیض و نفاس میں طلوع فجر تک تاخیر ہو جاتی ہے جب کہ وہ طلوع فجر سے قبل پاک ہو گئی ہوں تو اس صورت میں بھی ان کے لیے روزہ لازم ہو گا۔طلوع فجر کے بعد تک غسل مؤخر ہونے میں کوئی حرج نہیں، البتہ غسل میں طلوع آفتاب تک تاخیر نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ واجب ہے کہ وہ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے غسل کر کے نماز پڑھ لیں۔ اسی طرح جنبی کو چاہیے کہ وہ غسل میں اس قدر تاخیر نہ کرے کہ سورج طلوع ہو جائے بلکہ ضروری ہے کہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کر کے نماز فجر ادا کرے۔ مرد کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد غسل جنابت کرے تاکہ نماز فجر باجماعت ادا کر
Flag Counter