Maktaba Wahhabi

419 - 531
اونٹ کی قربانی کی، جو دوسری گھڑی میں آئے اس نے گویا گائے کی قربانی کی، جو تیسری گھڑی میں آئے اس نے گویا سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی، جو چوتھی گھڑی میں آئے اس نے گویا مرغی کی قربانی کی اور جو پانچویں گھڑی میں آئے اس نے گویا انڈے کی قربانی کی۔‘‘ وجہ استدلال یہ ہے کہ اس حدیث میں تقرب الہٰی کے حصول کے لیے اونٹ کی قربانی کو افضل قرار دیا گیا ہے پھر گائے اور پھر بکری کی قربانی کو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانی تقرب الہٰی کے حصول کا سب سے عظیم ذریعہ ہے اور اونٹ چونکہ قیمت، گوشت اور منفعت کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر ہے، لہذا ائمہ ثلاثہ ابو حنیفہ، شافعی اور احمد رحمۃ اللہ علیھم نے اس کی قربانی کو افضل قرار دیا ہے جب کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے افضل مینڈھے کی قربانی کو، پھر گائے اور پھر اونٹ کی قربانی کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دو مینڈھوں کی قربانی کی تھی[1] اور آپ تو ہمیشہ وہی عمل سر انجام دیا کرتے تھے جو سب سے افضل ہوتا تھا۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے کبھی غیر اولیٰ کو بھی امت کے لیے سہولت و آسانی کی خاطر اختیار فرما لیا کرتے تھے کیونکہ امت نے تو آپ کے اسوہ حسنہ ہی کو اختیار کرنا ہوتا ہے اور آپ یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ امت کو مشقت میں مبتلا کریں اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ نے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ کی نسبت افضل ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ میت کی طرف سے قربانی سوال: قربانی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا میت کی طرف سے بھی قربانی کرنا جائز ہے؟ جواب: اکثر علماء کے قول کے مطابق قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کی اور اپنی امت کو بھی قربانی کی ترغیب دی۔ قربانی دراصل زندہ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے، لیکن وہ اپنی قربانی کے ثواب میں زندہ اور مردہ انسانوں میں سے جس کو چاہے شریک کر سکتا ہے۔ میت کی طرف سے قربانی کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ میت نے اگر اپنے ثلث مال میں سے اس کی وصیت کی ہو یا اپنے وقف مال کے بارے میں یہ وصیت کی ہو کہ اس سے اس کی طرف سے قربانی کی جائے تو وارثوں کے لیے یہ واجب ہے کہ اس کی وصیت اور وقف کو اس کی خواہش کے مطابق عملی جامہ پہنائیں اور اگر وصیت و وقف کی صورت نہ ہو اور کوئی انسان اپنے ماں، باپ یا کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے، اسے میت کی طرف سے صدقہ شمار کیا جائے گا اور اہل سنت والجماعت کے قول کے مطابق میت کی طرف سے صدقہ مشروع ہے۔ قربانی کے جانور کی قیمت کو جانور ذبح کرنے سے افضل قرار دیتے ہوئے صدقہ کرنے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر وصیت یا وقف میں قربانی ہی کا ذکر ہو تو پھر وکیل کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ قربانی کے بجائے قیمت کو صدقہ کر دے، اس صورت میں اسے قربانی ہی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص ازخود کسی کی طرف سے صدقہ کر رہا ہو تو اس میں بہت وسعت ہے
Flag Counter