Maktaba Wahhabi

422 - 531
قربانی ذبح کرتے وقت ان لوگوں کا نام لینا مسنون ہے، جن زندہ یا مردہ لوگوں کی طرف سے ذبح کرنے کی اس نے نیت کی ہو اور اگر نام نہ لیا جائے تو نیت بھی کافی ہے۔ اور اگر کسی اور کا نام غلطی سے لے لے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ واللہ الموفق۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ قربانی کے گوشت کو کھانے کا حکم سوال: کیا قربانی کرنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرے؟ جواب: جس نے قربانی کرنی ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ کچھ نہ کھائے حتیٰ کہ عید کی نماز پڑھ لے اور پھر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرے۔ اور اگر آسانی سے ممکن ہو تو اس دن کے کھانے کا آغاز اپنی قربانی کے گوشت سے کر لے، اکثر اہل علم کا جن میں حضرت علی، ابن عباس رضی اللہ عنہما، مالک شافعی رحمۃ اللہ علیھم اور کئی دیگر بھی ہیں، یہی قول ہے۔ امام ترمذی اور اثرم نے حضرت بریدہ کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ کھائے بغیر تشریف نہیں لے جایا کرتے تھے اور عید الاضحیٰ کے دن نماز سے پہلے کچھ نہیں کھایا کرتے تھے۔[1] اثرم کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپ قربانی کرنے سے پہلے کچھ نہیں کھایا کرتے تھے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ عید الاضحیٰ کے دن نہ کھائے حتیٰ کہ نماز سے واپس آ جائے بشرطیکہ اس نے قربانی کرنی ہو[2] کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی کے گوشت کو تناول فرمایا کرتے تھے اور اگر قربانی نہ کرنی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کہ کسی اور کی قربانی کے گوشت کو عید سے پہلے کھا لے یا بعد میں۔ واللہ اعلم۔ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔ قربانی کا گوشت امیروں اور فقیروں سب کے لیے جائز ہے سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دس ذوالحجہ کو کسی سے قربانی کا گوشت لے لے جبکہ وہ خود بھی خوش حال ہو اور اسے گوشت کی ضرورت نہ ہو؟ جواب: جائز ہے کیونکہ ہدی، قربانی اور ہدی تمتع و قران کا گوشت تمام حاجیوں کے لیے خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر جائز ہے خصوصا جب کہ گوشت کے خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہو جیسا کہ آج کل قربانی کے بہت سے جانوروں کے گوشت کو پھینک دیا، جلا دیا یا دفن کر دیا جاتا ہے اور ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا اور پھر ارشاد باری تعالیٰ بھی ہے: ( فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّ‌) (الحج 22/36) ’’ان میں سے تم (خود) بھی کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والے کو بھی کھلاؤ۔‘‘ قانع سے مراد قناعت سے بیٹھ رہنے والا اور سوال نہ کرنے والا جبکہ معتر سے مراد وہ ہے جو سوال کرنے والا ہو۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔
Flag Counter