Maktaba Wahhabi

384 - 531
عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَ‌ٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُۥ حَاضِرِ‌ى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَ‌امِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللّٰهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾) (البقرة 2/196) ’’(جو تم میں سے) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے اہل و عیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ کیا ہدی کی طاقت رکھنے والے کے لیے یہ۔۔۔ سوال: ہدی سے بہت کم استفادہ کیا جاتا ہے، تو کیا یہ افضل نہیں ہے کہ جسے ہدی کی طاقت ہو وہ روزے رکھ لے اور واپس آ کر اپنے وطن کے مسکینوں میں ہدی کی قیمت تقسیم کر دے؟ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔ جواب: یاد رہے کہ احکام شریعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لیے جاتے ہیں۔ یہ لوگوں کی آراء پر مبنی نہیں ہوتے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں حکم یہ دیا ہے کہ حاجی اگر متمتع یا قارن ہو تو وہ قربانی کرے، اور اگر اسے قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پھر وہ دس روزے رکھے تین ایام حج میں اور سات اپنے گھر واپس آ کر۔ ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ ہم از خود احکام شریعت وضع کر لیں، لہذا جب یہ ہے کہ قربانی میں جو خرابی کی صورت پیدا ہو گئی ہے، اس کی اصلاح کی جائے اور وہ یہ کہ حکمرانوں کو توجہ دلائی جائے کہ قربانی کے جانوروں کے گوشت کی فقراء و مساکین میں تقسیم کا صحیح انتظام کیا جائے، جانوروں کے ذبح کرنے کی جگہوں کا خصوصی اہتمام کیا جائے، ان کو کشادہ بھی کیا جائے اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ حجاج کرام بروقت سہولت کے ساتھ اپنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کر سکیں۔ حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ قربانی کے گوشت کی مستحقین میں تقسیم کا مناسب انتظام کریں۔ فوری طور پر تقسیم ممکن نہ ہو تو ان کے لیے کولڈ ستوریج کا اہتمام کریں تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور بعد میں مکہ اور دیگر ممالک کے فقراء میں تقسیم کیا جا سکے۔ جہاں تک قربانی کے نظام میں تبدیلی کا تعلق ہے کہ اس کی استطاعت رکھنے والا بھی قربانی کرنے کے بجائے روزے رکھ لے یا اپنے ملک کے فقراء کے لیے قربانی کے جانور خرید لے یا اس کی قیمت ہی ان میں تقسیم کر دے تو یہ ایک نئی شریعت ہے۔ مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اسے اختیار کرے کیونکہ شارع اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات گرامی ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو شریعت سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (أَمْ لَهُمْ شُرَ‌كَـٰٓؤُا۟ شَرَ‌عُوا۟ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللّٰهُ) (الشوريٰ 42/21) ’’ کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے سامنے سر اطاعت ختم کر دیں، اسے نافذ کریں اور اگر
Flag Counter