Maktaba Wahhabi

186 - 531
صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کا مفہوم کیا ہے؟ جواب: یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے امام احمد اور کئی دیگر محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ روزے دار جب کسی دوسرے کو سینگی لگائے تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور اگر اسے کوئی سینگی لگائے تو اس کا روزہ بھی ٹوٹ گیا کیونکہ سینگی میں دو ہی آدمی ہوتے ہیں ایک سینگی لگانے والا اور دوسرا لگوانے والا۔ محجوم اس کو کہتے ہیں جس کا خون نکالا گیا ہو اور حاجم اسے کہتے ہیں جس نے خون نکالا ہو۔ اگر روزہ فرض ہو تو پھر سینگی لگوانا جائز نہیں الا یہ کہ اس کی شدید ضرورت ہو، مثلا فشار خون (خون کا دباؤ) بڑھ جانے کی وجہ سے بہت تکلیف ہو تو پھر سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ایک اضطراری صورت ہو گی، اس دن کی اسے قضا دینا ہو گی، سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ گیا، لہذا وہ دن کے باقی حصہ میں کھا پی سکتا ہے کیونکہ جو شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ توڑے اس کے لیے دن کے باقی حصہ میں کھانا پینا جائز ہے کیونکہ اس دن روزہ توڑ دینے کی شریعت نے اجازت دی ہے اور شرعی دلائل کے تقاضا کے مطابق اب اس کے لیے کھانے پینے سے رک جانا واجب نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کی مناسبت سے یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ بعض لوگ معمولی خراش کی وجہ سے بہت تھوڑا سا خون نکل آنے کی وجہ سے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا روزہ باطل ہو گیا حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر انسان کے لیے اپنے فعل کے بغیر خون نکلتا ہے خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا مثلا اگر کسی کی نکسیر پھوٹ گئی اور اس کی وجہ سے بہت سا خون نکل گیا تو اس سے روزے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا یا مثلا کسی زخم کے پھٹ جانے کی وجہ سے اگر بہت سا خون بہہ جائے تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا مثلا کسی حادثہ کی وجہ سے بہت سا خون بہہ جائے تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ان سب صورتوں میں غیر اختیاری طور پر خون نکلا ہے لیکن اگر خون اپنے ارادہ و اختیار سے نکالا جائے اور اس سے سینگی لگوانے کی وجہ سے بدن میں ضعف اور قوت میں کمی آ جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ معنوی طور پر اس میں اور سینگی لگوانے میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر خون اس قدر معمولی مقدار میں ہو کہ اس سے جسم متاثر نہ ہوتا ہو تو اس سے روزہ ٹوٹے گا۔ بہرحال ہر انسان کو چاہیے کہ وہ ان احکام و حدود کو جانتا ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے تاکہ وہ علی وجہ البصیرت اپنے رب کی عبادت کر سکے۔واللّٰه الموفق ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ روزے دار کے جسم سے خون لینا سوال: جب رمضان میں روزے دار کے دائیں ہاتھ سے کیمیائی تجزیہ کے لیے معمولی مقدار میں خون لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: کیمیائی تجزیہ کے لیے اس طرح معمولی مقدار میں خون لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا بلکہ ضرورت و حاجت کی وجہ سے یہ عمل قابل معافی ہے اور اس کا تعلق ان امور میں سے نہیں ہے جن کی وجہ سے شریعت مطہرہ کے احکام کی روشنی میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
Flag Counter