Maktaba Wahhabi

236 - 531
ڈالیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو رسوا کن عذاب ہو گا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَ‌سُولُ ٱللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضِ ۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللّٰهِ وَرَ‌سُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللّٰهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٨﴾ (الاعراف 7/158) ’’(اے محمد!) کہہ دیجئے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں (وہ اللہ) جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی زندگانی بخشتا اور وہی موت دیتا ہے۔ سو تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول نبی امی پر، جو اللہ پر اور اس کے تمام کلام (خود بھی) پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللّٰهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللّٰهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ﴾ (آل عمران 3/31) ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘(اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔) تو آپ سب کے لیے اور اپنے لیے بھی میری وصیت یہ ہے کہ تمام حالات میں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو پیش نظر رکھا جائے اور صدق دل سے تمام اقوال و افعال میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے کہ اس میں دنیا و آخرت کی سعادت اور نجات کا راز مضمر ہے۔ اے بیت اللہ الحرام کے حجاج کرام! ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ ذوالحج کو مکہ مکرمہ سے منیٰ کی طرف لبیک کہتے ہوئے روانہ ہوئے۔[1] آپ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی رہائش گاہوں سے احرام باندھ لیں اور منیٰ کی طرف چل پڑیں۔ اس موقع پر آپ نے انہیں طواف وداع کا حکم نہیں دیا تھا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ سنت یہ ہے کہ جو شخص حج کا ارادہ کرے خواہ اس کا تعلق اہل مکہ سے ہو یا وہ باہر سے آکر یہاں مقیم ہوا ہو یا وہ عمرہ سے حلال ہوا ہو تو وہ آٹھ ذوالحج کو لبیک کہتے ہوئے منیٰ کی طرف روانہ ہو۔ اس موقع پر حجاج کے لیے یہ حکم نہیں ہے کہ وہ مسجد حرام میں جا کر کعبہ کا طواف وداع کریں۔ حج کا احرام باندھتے وقت بھی مسلمان کے لیے یہ مستحب ہے کہ اسی طرح کے کام کرے جس طرح اس نے میقات پر احرام باندھتے ہوئے کئے تھے یعنی غسل کرے، خوشبو استعمال کرے اور صفائی وغیرہ کر لے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا حکم دیا تھا جب انہوں نے حج کا احرام باندھنے کا ارادہ کیا تھا۔[2] انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا کہ دخول مکہ کے وقت ماہانہ معمول شروع ہو گیا جس کی وجہ سے منیٰ کی طرف جانے سے پہلے ان کے لیے طواف مشکل تھا، اس لیے آپ نے حکم دیا کہ غسل کر لیں اور حج کا احرام باندھ لیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا جس کی وجہ سے ان کا حج
Flag Counter