Maktaba Wahhabi

71 - 531
بھی اس کے ترک کر دینے کی وصیت کی جائے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات بھی شریعت کے محاسن اور حکمت و مصلحت میں سے ہے کہ اہل جاہلیت موت کی مصیبت کی وجہ سے سوگ منانے میں حد درجہ مبالغہ سے کام لیتے تھے عورت ایک تنگ و تاریک اور وحشت ناک کوٹھڑی میں ایک سال اس طرح گزارتی کہ نہ خوشبو استعمال کرتی، نہ تیل لگاتی اور نہ ہی غسل کرتی اور اس طرح کے کئی اور کام بھی کرتی جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کی تقدیر سے ناراضی کا اظہار ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے ساتھ ہمارے لیے جاہلیت کے اس طریقے کو باطل قرار دے دیا اور اس کی بجائے ہمیں صبر اور اپنی حمد بیان کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔‘‘ موت کی مصیبت ہی چونکہ ایسی اندوہناک ہے کہ اس سے مصیبت زدہ کو غم و حزن کا لاحق ہونا ایک طبعی امر ہے لہذا اس حکیم و خبیر ہستی نے ہمیں تھوڑے سے سوگ کی اجازت دی ہے یعنی صرف تین دن تک اور اس مدت میں آدمی اپنے غم و حزن کا اظہار کر کے راحت حاصل کر سکتا ہے۔ اگر اس سے زیادہ مدت تک سوگ کا اظہار کیا جائے تو پھر اس میں خرابی کا پہلو راجح ہو گا، لہذا اس سے شریعت نے منع کر دیا ہے، ہاں البتہ تین دن تک مردوں پر سوگ کی اجازت ہے لیکن بیوی اپنے شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت کا سارا عرصہ سوگ میں گزار سکتی ہے جبکہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے اور وضع حمل کے ساتھ ہی اس کا سوگ بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘ عدت کی تکمیل کے بعد محفل منعقد کرنا بھی بدعت ہے جبکہ وہ نوحہ اور بین وغیرہ حرام امور پر مشتمل ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور سلف صالح میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ میت کے وقت یا ساتویں دن یا چالیسویں دن یا سال بعد برسی کی محفل کا اہتمام کیا جائے بلکہ یہ تو بدعت اور ایک قبیح عادت ہے، لہذا ان جیسی بدعات سے دور رہنا، ان کا انکار کرنا، ان سے توبہ کرنا اور ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس میں مشرکوں کے ساتھ مشابہت ہے اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ بِالسَّيْفِ حَتَّى يُعْبَدَ اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذِّلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) (مسند احمد: 2/50) ’’مجھے قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہے یہاں تک کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی جا سکے، میرا رزق میرے نیزہ کے سایہ تلے رکھ دیا گیا ہے، ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہے جو میرے حکم کی مخالفت کرے اور جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ اسی میں سے ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے: (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْس عَلَيْهِ أمْرُنا؛ فَهْوَ رَدٌّ) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718) ’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘ علاوہ ازیں اور بھی بہت سی احادیث مبارکہ ہیں جن میں مشرکوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے اور دین میں بدعت پیدا کرنے کی ممانعت ہے۔ واللہ اعلم۔
Flag Counter